وادیئ پشاور کے مثالی خطے کی حالت زار

یونیورسٹی کیمپس وادیئ پشاور کا وہ مقام تھا جہاں پر جون جولائی میں بھی درجہ حرارت دو تین درجے کم ہوا کرتا تھا۔انتظام و انصرام بہترین جبکہ ہریالی اور صفائی ضرب المثل تھی مگر اب؟ اس کی اس وقت کی ایک بڑی وجہ تو خیر کئی مہینوں سے جاری خشک سالی بھی ہو سکتی ہے تاہم اس وجہ کو تو محض ہریالی ناپید ہونے یعنی خشک سالی کی حد تک تسلیم کیا جاسکتا ہے انتظام و انصرام کی زبوں حالی اور صفائی کی ابتر حالت کا توخشک سالی سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ہاں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی سے بیک وقت اور بیک جنبش قلم پانچ سو سے زائد ایڈہاک ملازمین کو فارغ کرنے سے افرادی قوت کا جو بحران پیدا ہوا اس کے سبب یونیورسٹی کا تمام نظام اور نظام جڑے تمام امورکسی حد تک متاثر ہوئے ہیں مطلب یہ کہ سیکورٹی‘ صفائی اور کلرکس اور نائب قاصد کے ذریعے انجام دینے والے امور میں تعطل واقع ہوا ہے شاید یہی وجہ ہو کہ ایڈمنسٹریشن والے سپورٹنگ سٹاف کی کمی کا رونا رو رہے ہیں اور جب ٹریفک کی بدترین صورتحال اورصفائی کی ناگفتہ بہ حالت کی بات کی جائے تب بھی عملے بالخصوص سیکورٹی اورصفائی کے سٹاف کی کمی کو جواز بنا دیا جاتا ہے شعبہ امتحانات اور اکاؤنٹس سمیت انتظامیہ کے جن دفاتر میں ایڈہاک جونیئر کلرکس سے کام لیا جاتا تھا وہ اب تقریباً وہ نشستیں خالی پڑی ہیں وجوہات اور بھی ہوں گی تاہم بنیادی اور بڑی وجہ مالیاتی پوزیشن کی کمزوری بتائی جاتی ہے یہ بات اپنی جگہ کہ جامعہ پشاور کے سربراہ یونیورسٹی کی دگرگوں مالی حالت میں حکومت کے مالی تعاون کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے آنے سے قبل یونیورسٹی مالیاتی طورپر بالکل بیٹھ گئی تھی یعنی دیوالیہ ہونے والی تھی لیکن انکی کوششیں اور اصلاحات یا بقول ملازمین کٹوتیاں صورتحال میں ٹھہراؤ اور قدرے استحکام کا باعث بنیں دوسری جانب دوسری پرانی یونیورسٹیوں بالخصوص انجینئرنگ یونیورسٹی کی حالت اور شکوہ اس سے مختلف ہے ان کا گلہ ہے کہ وباء کے سبب تعلیمی اور مالیاتی ضیاع جبکہ تنخواہ‘ الاؤنسز اور پنشن کی ادائیگی میں پیدا ہونے والی مشکلات تو تمام جامعات کا مشترکہ مسئلہ تھا مگر اسکے باوجود حکومت نے مالی مدد یا گرانٹ کی فراہمی میں انجینئرنگ یونیورسٹی کو یکسر نظرانداز کردیا ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے ایسے میں حکومت بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ جامعات اپنے اخراجات گھٹائیں اور طلباء کی تعداد بڑھائیں اب اس بات کو سمجھنا کوئی مشکل کام بالکل نہیں کہ حکومت کی ان باتوں میں واضح تضاد پایا جاتا ہے مطلب یہ  کہ طلباء کی تعداد بڑھانے سے اگر آمدن میں اضافہ ہوگا توکیا ان پر ہونے والے اخراجات میں اضافہ نہیں ہوگا؟ دوسری طرف ان کے انتظام و انصرام کا کیا بنے گا؟ کیونکہ ٹیچنگ سٹاف‘ ایڈمن سٹاف‘ سیکورٹی گارڈز اور کلاس فور اور کلاس تھری جیسے سپورٹنگ سٹاف کی کمی کا رونا تو پہلے سے رویا جارہا ہے جب موجودہ حالت میں روڈ پارکنگ میں تبدیل ہوں اور یونیورسٹی کے انتہائی اہم اکیڈمک ایریا کے روڈ نمبر 2 سے گزرنا محال ہو تو سوچنے کا مقام ہے کہ پھر اس وقت حالت کیا ہوگی جب آمدنی بڑھانے کی غرض سے طلباء کی تعداد تیس ہزار ہو جائے؟ مذکورہ روڈ نمبر2 سے جڑا ایک روڈ ایسا بھی ہے جو انجینئرنگ یونیورسٹی چوک سے بہ روئے مغرب پوسٹ مال چوک تک جاتا ہے اب یہ بات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ اس سڑک کو دونوں جانب پارکنگ میں تبدیل کیاگیا ہے جبکہ دونوں طرف فٹ پاتھ پر بھی انجینئرنگ یونیورسٹی کے نیو اکیڈمک بلاک میں آنیوالی گاڑیوں کا قبضہ ہے اس روڈ سے یونیورسٹی ماڈل سکول اور اسکے قریب وجوار میں واقع لڑکیوں کے سرکاری سکولز کی بچیاں روزانہ جس کیفیت سے گزرتی ہیں اسکا یونیورسٹی کیمپس کوارڈی نیشن کمیٹی کو کبھی بھول کر بھی احساس نہیں ہوا مسائل ان گنت اور غفلت کی مثالیں بے شمار ہیں موجودہ حکومت کے سربراہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی سے جڑے مسائل سے نمٹنے کیلئے کلین اینڈ گرین پاکستان اور پلانٹ فار پاکستان جیسی مہمات چلارہے ہیں جبکہ جامعات کی حالت یہ ہے کہ پورا کیمپس پلاسٹک کوڑا کرکٹ اور غلاظت کے ڈھیروں سے بھرا پڑا ہے اور شجرکاری کا عالم یہ ہے کہ تشہیر اور تصویر کیلئے محض ایک پودا لگا کر باقیماندہ مہم کو خیرباد کہہ دیا جاتا ہے۔