کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے حسب توقع چارج سنبھالنے کے بعد گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان کا اپنا پہلا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مقامی حکام کے ساتھ علاقہ کے مشران اور سیاسی قائدین کے ساتھ مختلف ایشوز اور مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور علاقے کے امن و تعمیر و ترقی کے لئے ان کی تجاویز سننے کے بعد ان کو یقین دلایا کہ حکومت اور فوج عوام کے مسائل کے حل اور امن کے مستقل قیام کیلئے ہر اقدام اٹھائیں گے۔ چارج سنبھالنے کے فوراً بعد کور کمانڈر کا شمالی وزیرستان کادورہ کرنا اور ایک نمائندہ جرگے سے ملاقات کرنا جہاں ان کی ترجیحات کو واضح کرتا ہے وہاں یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ان کو قبائلی علاقوں کے امن و تعمیر نو سے کتنی دلچسپی ہے اور وہ اس خطے کو درپیش چیلنجز سے کتنے آگاہ ہیں۔ انہوں نے جرگے سے اپنے خطاب میں واضح انداز میں کہا کہ فوج اور حکومت عوام کے تعاون سے نہ صرف امن کو قائم رکھیں گے بلکہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں خصوصاً تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے مشران، والدین اور انتظامیہ پر زور دیا کہ نئی نسل کو تعلیم دلوانے پر خصوصی توجہ دیں تاکہ بچوں کو پر امن، ذمہ دار اور خوشحال شہری بنانے کے خواب کو حقیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس موقع پر انہوں نے اتمانزئی قبائل کو یہ یقین دلایا کہ افغانستان میں پھنسے ان افراد اور گھرانوں کو واپس لانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں گے جو کہ بوجوہ آپریشن سے قبل وہاں ہجرت یا نقل مکانی کر چکے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ علاقے کی سیکورٹی کو اس طرح برقرار اور قائم رکھا جائیگا اور ساتھ میں تعمیر نو کاکام بھی تیز کیا جائیگا۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ شمالی وزیر ستان کے عوام اور وہاں پر فرائض سر انجام دینے والے سرکاری اہلکاروں اور فورسز نے امن کے قیام کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور ان کو کئی برسوں سے نہ صرف معاشی اور سماجی بلکہ سیکورٹی کے سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نئے کور کمانڈر چونکہ اس سے قبل ڈی جی آئی ایس آئی کے اہم عہدے پر فائز رہے ہیں اور ان کو اس خطے کے علاوہ افغانستان کے حالات اور ممکنہ پراکیسز کا بھی دوسرے عہدیدار سے زیادہ تجربہ اور معلومات حاصل ہیں۔ اس لئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب بہت بہتری آئے گی۔قبائلی علاقہ جات کی ترقی کیلئے حکومت کی طرف سے فراخدلی کے ساتھ فنڈز کی فراہمی اس کا ثبو ت ہے کہ یہ علاقے جلد ترقی یافتہ علاقوں کے برابر آجائیں گے تاہم عملی اقدامات میں تیزی اور سول اداروں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔قبائلی عوام کی اکثریت نہ صرف یہ کہ امن اور ترقی کے خواہاں اور خواہشمند ہیں بلکہ وہ تعمیر نو کی کوششوں اور معاشی ترقی کی مد میں ریاست کے ساتھ تعاون بھی چاہتے ہیں ایسے میں ان کی مشاورت اور تجاویز سے فائدہ اٹھا کر محض ان روایتی بیوروکریٹس کے دعوؤں اور رپورٹوں پر زیادہ انحصار نہ کیا جائے جو اعلیٰ ترین حکام کو رپورٹ دیتے ہوئے سب اچھا ہے کے روایتی فارمولے کو آزماتے آئے ہیں۔