تبدیلی کا سفر

کوئی بھی معاشرہ آئیڈیل نہیں ہو سکتا کوئی بھی ملک مشکلات کمزوریوں اور نقائص سے مبریٰ یا صاف نہیں ہوتا جہاں انسان ہونگے وہاں غلطیاں بھی ہوں گی مشکلات بھی اور چیلنج بھی تصراتی دنیا محض کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہے شر اور خیر‘ منفی اور مثبت‘ پانی اور آگ‘ اچھے اور برے کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ عین ایک فطری عمل ہے ارتقائی عمل اور شعوری کوششوں سے معاشروں میں تبدیلی لانے کا سلسلہ روکنا نہیں چاہئے تاکہ بہتری کے عمل کو بدتری پر سبقت حاصل ہو اور ناامیدی کے مقابلے میں امید کا چراغ جلتا رہے پاکستان تیزی کے ساتھ ایک جمہوری‘ سماجی ارتقائق عمل سے گزررہا ہے اور ماضی کے مقابلے میں بہت سی چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں یہ خواہش رکھنا اب کچھ چند مہینوں یا برسوں میں ٹھیک ہو جائیں گی ایک ناقابل فہم رویہ ہے المیہ یہ ہے کہ جو لوگ تبدیلی کی خواہش میں کچھ زیادہ ہی جلدی کرتے نظرآتے ہیں وہ عملی طور پر کسی بھی مثبت تبدیلی میں اپنے حصے کا کردار بھی ادا نہیں کر پارہے بلکہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کو پانی کا گلاس ہر وقت اور ہر صورت میں آدھا ہی بھرا ہوانظرآتا ہے بات اور مسئلہ نظر اور نظریئے کا ہے بعض لوگ آدھے بھرے گلاس میں بتدریج قطرہ قطرہ پانی ڈال کر اسکو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ بعض ایسے ہیں جو کہ گلاس توڑنے کے درپے ہیں اور وہ مایوسی اور بے چینی پھیلانے کے عمل کو اپنا فریضہ سمجھ رہے ہیں۔ تاہم تصویر کا دوسرا رخ تو یہ بھی ہے کہ  تنقید‘ اعتراضات اور مزاحمت کے ساتھ ساتھ تجاویز اور اصلاح کا کام بھی جاری ہے اور مکالمہ بھی ہو رہا ہے بہت سی کمزوریوں کے باوجود ملک میں جمہوری نظام اور اظہار رائے کو فروغ مل رہا ہے‘ ترقی اور حصول تعلیم کا عمل سست ہی سہی مگر جاری ہے اور پرامن تحاریک کیلئے گنجائش بھی بڑھتی جارہی ہے یہ کہنا کہ زیادتی ہے کہ کچھ بہتر نہیں ہو رہا اور ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں بعض مسائل اندرونی ہے تو بعض ایشوز کا تعلق بیرونی عوامل اور عالمی تبدیلیوں سے ہے بات صرف نیت اور درست سمت کے تعین کی ہے اور صبر کی بھی اشد ضرورت ہے پاکستان کا موازنہ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ کینیڈا یا ایسے ان ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کرنا  بہت زیادتی ہے جو کہ صدیوں اور کئی دہائیوں کے ایک ارتقائی عمل سے گزر کر اس مقام تک پہنچے ہیں اور اس سفر میں ان کو ہم سے کئی گنا زیادہ تکالیف اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ہم دنیا کے درجنوں ممالک‘ اقوام اور معاشروں سے بہت بہتر ہیں اور مزید بہتری کے امکانات ڈھونڈ رہے ہیں ایسے میں زیادہ مایوسی اور بے چینی پھیلانے سے گریز کا فیکٹر بنیادی اہمیت کا حامل ہے خدا نے ہمیں بے پناہ قدرتی اور افرادی قوت کے علاوہ انتہائی اہم جغرافیہ سے نوازا ہے ضرورت صرف ان وسائل کے بہتر استعمال اور اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے احساس کا ہے چند افراد یا چند رویوں کی شکایات کی آڑ میں بے یقینی اور مزاحمت پر مبنی رویے اختیار کرنے سے جتنی گریز کی جائے اتنا ہی بہتر ہے نئی نسل بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور10کروڑ کے لگ بھگ یہ افرادی قوت پرامن ماحول پاکر اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ہمیں انکی تربیت حصول تعلیم اور حوصلہ افزائی پر توجہ دینی ہوگی تلخ حقائق کا سامنا کئے بغیر اورماضی پرستی‘ شخصیت پرستی سے جان چھڑائے بغیر ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے جبکہ آبادی میں خطرناک اضافہ پر قابو پانا بھی بے حد ضروری ہوگیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مایوسی کی بجائے اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ گلاس پانی یا دودھ سے آدھا بھرا ہوا ہے اور ہم نے اس میں مزید پانی اور دودھ ڈالنا ہے۔