مسلسل گھمبیر ہوتی صورتحال

بجٹ میں 10فیصد اضافے کا جو اعلان ہوا تھا تنخواہوں اور پنشن میں اس کی ادائیگی کیلئے حکومت کی طرف سے جامعات کو تاحال کوئی ٹکہ پیسہ نہیں ملا۔ مراعات میں کچھ حد تک اضافہ اور اساتذہ کیلئے20فیصد ٹیچنگ الاؤنس اسکے علاوہ ہیں جبکہ یونیورسٹیوں کی حالت یہ ہے کہ بمشکل محض تنخواہ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔یہ اضافے یکم جولائی2021ء سے واجب الادا ہیں مطلب یہ کہ چھٹا مہینہ شروع ہے اب ان اضافوں کیساتھ ملازمین کو تنخواہیں جبکہ سبکدوشوں کو پنشن کی ادائیگی اگر یونیورسٹیاں چاہیں بھی تو ادائیگی کیسے اور کہاں سے کریں گی؟ حکومت بار بار اس بات پر زور دے رہی ہے کہ جامعات اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں مگر حالت یہ ہے کہ یونیورسٹیاں کے جب پاؤں یا ٹانگیں ہے ہی نہیں تو اپنے پاؤں پر کیسے کھڑی ہوں گی؟ پاؤں تو تب پیدا ہونگے جب حکومت کٹوتی کی بجائے تعلیمی بجٹ میں حسب ضرورت اضافہ کرے اور ساتھ ہی پشاور یونیورسٹی جیسی پرانی جامعات کیلئے پنشن انڈومنٹ فنڈ کے قیام میں پہل کرکے اپنے غیر ترقیاتی اخراجات سے خطیر فنڈ فراہم کردے صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جامعہ پشاور کو رواں مالی سال کے دوران اربوں روپے گرانٹ فراہم کی ہے جبکہ60 کروڑ روپے کی لاگت سے یونیورسٹی میں تین بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے مگر ذرائع کا کہنا اس سے بالکل مختلف ہے کہتے ہیں کہ اربوں کہاں ہیں؟ اور یہ بھی کہ یونیورسٹی میں جن منصوبوں پر کام ہو رہا ہے وہ وفاقی حکومت کے پراجیکٹ ہیں ایسے میں معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جامعہ پشاور کو سالانہ ایک ارب روپے بجٹ خسارے سے نکالنے کیلئے حکومت نے قسط وار80کروڑ روپے کا جو وعدہ کیا تھا ان میں 350 ملین روپے راستے میں کہیں پھنس گئے ہیں کہتے ہیں کہ باقیماندہ گرانٹ کی فراہمی کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے مطلب یہ کہ  یہ پیسے اب ملنے والے نہیں رہے کیونکہ جس چیز جس کام کیلئے کمیٹی یا کمیشن قائم کیا جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر نہیں کہ وہ گیا گزرا ہو جاتا ہے یعنی یہ کہ قدیم درسگاہ خسارے ہی میں رہے گی ان حالات میں ایک باعث تشویش خبر یہ بھی ہے کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ایم رسول جان جاتے جاتے810 ملین روپے کا جو پراجیکٹ وفاقی حکومت سے منظور کروا کر یونیورسٹی لائے تھے وہ فنڈ مقررہ وقت میں خرچ نہ ہونے کے سبب نصف سے زائد یعنی55 کروڑ روپے اعلیٰ تعلیم کمیشن نے واپس لے لئے ہیں اگر خبردرست ہے تو اس سے زیادہ کمزوری اور کیا ہو سکتی ہے؟ کیا یہ بات یونیورسٹی کے علم میں نہیں کہ جامعات کو جو پیسہ ملتا ہے وہ باقاعدہ حساب کتاب اور احتساب کے تحت ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ حکومت سے کوئی پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ قوم کا پیسہ کہاں اور کیسے خرچ کیا؟ جامعات کا تو یہ عالم ہے کہ اخراجات جاریہ کی گرانٹ پہلے تین مہینوں کیلئے ملتی تھی مگر اب یہ قسط ماہانہ ہوگئی ہے اور یوں یونیورسٹی کا ٹریژرری سیکشن دوسرے تمام کام کاج چھوڑ کر یا بمشکل وقت نکال کر ہر مہینے کی گرانٹ کیلئے بجٹ تیار کرکے اعلیٰ تعلیمی کمیشن میں پنشن کرنے کا پابند ہوتا ہے آگے کمیشن کی مرضی کہ وہ اس میں سے کتنی کٹوتی پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ حکومت صوبے کی 32سرکاری یونیورسٹیوں کے مالی اور انتظامی مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے۔ ایسے میں یونیورسٹی ملازمین بالخصوص اساتذہ اور ان کی تنظیم فپواسا کی رائے اور ردعمل معلوم کرنا بھی لاحاصل نہیں ہوگا تاکہ یہ پتہ چلے کہ یونیورسٹی ملازمین تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مسائل کے حل کے حوالے سے حکومتی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں۔