اسلا م آباد کے ایک ہا ل میں بے روز گار نو جواں جمع تھے۔ ان میں پر چیاں تقسیم کر کے کہا گیا کہ اپنی تعلیمی قابلیت کی آخری ڈگری کا نا م لکھو سب نے لکھا۔پر چیاں جمع کی گئیں جب حساب لگا یا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں 70فیصد ایم اے اور ایم ایس سی کر چکے تھے۔ بقیہ میں سے 25فیصد بی اے، بی کام، ایم کام، ایم بی اے وغیرہ کی ڈگریوں والے تھے جبکہ 5فیصد ایم فل یا پی ایچ ڈی بھی تھے۔ہال کے پروگرام کا سہولت کار جب روسٹرم پر آیا تو اُس نے اپنی بات ایک واقعے سے شروع کی۔ واقعہ یون بیان کیا کہ جاپان‘ چین اور جنو بی کوریا میں کوئی نو جوان بے روز گار نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں پرائمری سکول میں نو جوان کے روزگار کا فیصلہ ہوجا تا ہے۔وہاں گریجویشن اور ما سٹر کی ڈگری سے زیا دہ پرائمری سرٹیفیکیٹ کو اہمیت دی جا تی ہے صرف تین جملوں میں اتنی بڑی بات کہنے کے بعد سہولت کار نے بے روز گار نوجوانوں سے خطاب کر تے ہوئے کہا تم میں کسی کو یو نیورسٹی اور کا لج جا نے کی ضرورت نہیں تھی۔اگر تم 10سال سکول میں گزار نے کے بعد کسی ایک شعبے میں کام کرنے پر لگ جا تے تو آج تم میں سے کوئی بھی بے روز گار نہ ہو تا اپنے پر مغز اور بصیرت افروز خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام نوجوانوں کو یو نیورسٹی کا راستہ دکھا نا افرادی قوت کا ضیا ع ہے۔پرائمیری تعلیم لا زمی ہے سو فیصد کو ملنی چا ہئے۔ یو نیورسٹی کی تعلیم لا زمی نہیں اگر 20فیصد کو ملے توکا فی ہے با قی 80فیصد کے ساتھ ان کو بھی با عزت روز گار کے موا قع مل جائینگے۔ہال میں بیٹھے ہوئے سا معین میں سے صاحب ذوق حا ضرین کو ضمیر جعفری کا مشہور مصرعہ یا دآ یا ”ڈگری کو میرے لیجئے اچار ڈالئے“ وطن عزیز پا کستان میں 73سالوں کے اندر 10تعلیمی پا لیسیاں بنا ئی گئیں یکساں نصاب والی پا لیسی دسویں پا لیسی ہے۔ ان پا لیسیوں نے قوم کو بے روزگاروں کی فوج ظرمو ج کا تحفہ دیا ہے۔ ہم نے جا پا ن، چین اور جنو بی کوریا سے کچھ نہیں سیکھا اعلیٰ تعلیم اچھی چیز ہے اللہ تعا لیٰ کی نعمت ہے لیکن اس کو لا زم ٹھہر انا درست نہیں۔ تعلیمی نفسیات میں بچوں اور بچیوں کے استعداد، انکی دلچسپی اور ان کی مہا رتوں کو نا پنے کے بڑے اچھے اور واضح پیما نے مقرر ہیں۔آج کل ان پیمانوں کا جا ئزہ 3سال کے بچوں اور اس عمر کی بچیوں سے شروع کیا جا تا ہے۔ ابتدائی بچپن کی ترقی (ای سی ڈی) اور مونٹی سوری کے نظام تعلیم میں 3سال سے لیکر 5سال تک کی بچیاں یا اس عمر کے بچے داخل ہو تے ہیں ان کے سامنے ایک طرف ریت، پتھر، مٹی کے ڈھیر رکھے جا تے ہیں دوسری طرف مختلف کا موں کے اوزار رکھے جاتے ہیں۔ تیسری طرف کتاب‘ کا پی‘ پنسل‘ چارٹ اور ڈرائنگ والے رنگ رکھے جا تے ہیں بچیوں اور بچوں کو آزادی سے اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے کی کھلی اجا زت دی جا تی ہے۔ اساتذہ ہر طالب علم یا طا لبہ کی دلچسپی اور ذہنی استعداد کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ یہ مشاہدات 2سال بعد بچے یا بچی کے مستقبل کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں‘ پرائمری تعلیم 7 سال کا ہوتا ہے۔ 7سال کے بعد سکول کا سر براہ جو سر ٹیفیکیٹ دیتا ہے اس میں طالبہ یا طالب علم کی دلچسپی اور اس کے ذہنی استعداد کا جا ئزہ سب سے اہم ہو تا ہے‘ جس کے نتیجے میں اپنے متعلقہ شعبوں میں چلے جاتے ہیں اور مستقبل میں ان میں سے کوئی بے روز گار نہیں ہو تا ان کی افرادی قوت ضا ئع نہیں ہوتی جبکہ ہماری افرادی قوت ضا ئع ہو جا تی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی