پہنچتے پہنچتے رہ گئے

پشاور یونیورسٹی سنڈیکیٹ میں تدریسی شعبہ جات کے سربراہوں کی نمائندگی کی نشست پر ہونے والا انتخاب ایک بارپھر التواء کا شکار ہوا ایسا اس سے قبل بھی ہوا تھا یہ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا تھا مگر کچھ نہ بن سکا پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے موجودہ جنرل سیکرٹری پروفیسر محمد اقبال جدون فرینڈز کی طرف سے چیئرمین شپ کے امیدوار تھے جو کہ اب نہیں رہے کیونکہ جب موصوف چیئرمین ہی نہیں رہے تو امیدوار کیسے ہونگے؟ جامعہ کی حالیہ سنڈیکیٹ میں موصوف کو چیئرمین شپ سے ہٹایا گیا شعبہ شماریات میں غالباً محض دو ہی فل پروفیسر ہیں ایک پروفیسر اقبال جدون اور ایک پروفیسر قمر زمان ہیں مگر چیئرمین شپ کی ذمہ داری قمر صاحب کی جگہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عاصم کے حصے میں آئی ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور غالباً آئندہ بھی ہوتا رہے گا جامعہ پشاور میں ایسے تدریسی شعبہ جات اور بھی ہونگے جہاں پر پروفیسر کی موجودگی کے باوجود ایسوسی ایٹ پروفیسر چیئرمین ہونگے برکیف سنڈیکیٹ میں پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی نشستیں بھی گزشتہ ماہ پانچ نومبر کو فعال ہو چکی ہیں جس پر انتخابات کے کوئی آثار تاحال نظر نہیں آرہے ہیں یونیورسٹی اساتذہ کی اکثریت کا مؤقف ہے کہ  خالی ہونیوالی نشستوں پر انتخابات کا شیڈول کئی ہفتے قبل آنا چاہئے تھا سنڈیکیٹ میں چیئرمین شپ کا انتخاب تو خیر لٹک گیا البتہ اکیڈمک کونسل کیلئے ایسوسی ایٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر جبکہ لیکچرار کی دو دو نشستوں پر انتخابات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے چونکہ فل پروفیسر خود بخود براہ راست اکیڈمک کونسل کے رکن ہوتے ہیں اس لئے اس کا انتخاب نہیں ہوگا پروفیسر اقبال کے قضیئے پر سنڈیکیٹ میں فرینڈز سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ پروفیسرز کے نمائندے راشد علی جان اور لیکچررز کے نمائندے محمد عُزیر نے اپنا اختلاف نوٹ کروالیا ہے جبکہ پیوٹا کی قیادت کارد عمل بھی سامنے آیا ہے تاہم میرے نزدیک جامعہ پشاور اس وقت مالی اور انتظامی طورپر جن گو نا گوں مسائل سے دو چار ہے اور انتظام و انصرام کا جو بحران پیدا ہوا ہے ایسے میں ذاتی سیاسی اور گروہی وابستگی اور مفاد کو پس پشت ڈال کر یونیورسٹی کے مفاد میں سوچنا اور آگے بڑھنا ہی وقت کا تقاضا ہے جامعہ کے حالیہ سنڈیکیٹ نے تنخواہ اور پنشن سمیت مختلف مالی ادائیگیوں میں اضافے کی جو منظوری دیدی ہے اس کیلئے مالی وسائل کا انتظام اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے اب یہ ایک بڑے چیلنج اور آزمائش کی گھڑی ہے جب تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی ادارے حکومت کا مسئلہ ہو اور نہ ہی حکومتی ترجیحات میں شامل ہوں تو ایسے یونیورسٹی کی انتظامیہ، فیکلٹی اور نان ٹیچنگ سپورٹنگ سٹاف کا الگ الگ راگ الاپنا دانشمندی نہیں ہوگی سوال یہ ہے کہ چھ مہینوں کی 10فی صد اضافی تنخواہ پنشن اور بعض مراعات جیسے الاؤنسز کیلئے ہیں کی ادائیگی کیلئے یونیورسٹی کے پاس مالی وسائل کی پوزیشن کیا ہے؟ کیا یہ بات یقینی ہے کہ مذکورہ اضافوں کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی اور بعد ازاں سنڈیکیٹ سے منظوری کے باوجود اس کی ادائیگی کیلئے حکومت کی طرف سے حسب وعدہ جامعہ کو گرانٹ مل جائے گی؟ پہلے تو یہ شرط ہی بلا جواز تھی کہ تنخواہوں پنشن اور بعض الاؤنسز میں ہونیوالے اضافے کو یونیورسٹیاں اپنی باڈیز یعنی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی اور سنڈیکیٹ سے منظور کروا کر پیش کریں تب حکومت گرانٹ دیگی۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ جو اعلان بجٹ میں ہو جائے یونیورسٹی کی کسی بھی باڈی سے اس کی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی؟ بہرکیف موجودہ وقت اور حالات کی نزاکت اور جامعہ کا تقاضا تو یہ ہے کہ انتظامیہ اور فیکلٹی کے مابین افہام و تفہیم، باہمی احترام و تعاون اور ٹیم ورک کی فضاء قائم ہو بصورت دیگر یونیورسٹی اس وقت جس ناگفتہ بہہ مالی اور انتظامی حالت، ٹریفک کے اژدھام آؤٹ سائیڈروں کی پھرتیوں اور فرائض کی بجا آوری میں غفلت کے جن مسائل کا سامنا کررہی ہے مستقبل قریب میں یہ حالت مزید بد سے بدتر ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔ باقی رہی پروفیسر محمد اقبال جدون کی یونیورسٹی سنڈیکیٹ تک پہنچتے پہنچتے رہ جانے کی بات تو یہ امر کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ جو شخص نہایت بھاری اکثریت سے جامعہ کے چھ سو سے زائد اساتذہ کی نمائندگی کا حامل ہو اور بات کرنے میں بھی کسی تذبذب کا شکار نہ ہو اس کا تو راستہ روکنا ہی پڑتا ہے۔