کیا یونیورسٹیاں محض پیسوں سے چلتی ہیں؟

کسی نے اگر یہ طے کرلیا ہو کہ یونیورسٹیاں پیسوں سے چلتی ہیں لہٰذا پیسے ہتھیانے کیلئے طلباء کی تعداد بڑھانا ناگزیر ہوگا تو ممکن ہے کہ کسی معاملہ فہم اور دور اندیش شخص کے نزدیک یہ سوچ خام خیالی سے زیادہ اور کچھ بھی نہ ہو مثال کے طور پر اگر ایک یونیورسٹی میں سکولز کالجز انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کو ملا کر طلباء کی کل تعداد5ہزار ہو اور یونیورسٹی میں انتظام و انصرام کا یہ عالم ہو کہ ٹیچرز پورے ہوں نہ ہی کلاس رومز۔کیمپس میں سپیس کی حالت یہ ہو کہ فورسٹروک اور ٹوسٹروک رکشوں پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں اور پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیوں نے یونیور سٹی کو جنرل بس سٹینڈ میں تبدیل کیا ہو سڑکوں اور فٹ پاتھ پر سٹینڈ قائم ہوں رئیس زادوں اور بگڑے ہوئے منچلوں نے یونیورسٹی کیمپس کا ریس‘ون ویلنگ اور سکریچنگ کیلئے ایک بہترین جگہ یعنی شہر ناپرسان کے طورپر انتخاب کیا ہو کالے سٹیکر ریکارڈنگ اورسگریٹ نوشی پرکوئی روک ٹوک نہ ہو یہاں تک کہ پوچھ گچھ کچھ اس طرح عدم پتہ ہو جائے کہ خاکروبوں سے بھی یہ جواب طلبی کرنے والا کوئی نہ رہے کہ ارے بھئی یہ دن8بجے صفائی کا کونسا وقت اورطریق ہے؟ اوروہ بھی بغیر چھڑکاؤ کے؟ جب انتظامیہ اور فیکلٹی ایسی  دگرگوں حالت پر قابو پانے اور مسائل  کا حل ڈھونڈنے کی بجائے مقدمہ بازی کو اپنا سب سے زیادہ ضروری کام سمجھ بیٹھیں جب یونیورسٹی لاکھوں کروڑوں روپے مالیاتی اداروں اور اپنے ملازمین کے چھ مہینوں کی تنخواہوں الاؤنسز اور اس طرح پنشن میں ہونیوالے آٹے میں نمک کے برابر اضافے کے بقایا جات کا مقروض ہو اور حکومت کی طرف سے مطلوبہ ضرورت سے کم گرانٹ مل رہی ہو تو ایسے میں یقینا یہ سوچنا ایک فطری امر ہوگا کہ کیوں نہ طلباء کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ زیادہ پیسہ آنے کی راہ ہموار ہو جائے مگر سوال یہ ہے کہ سنبھالنے کا اہتمام اور انتظام کیا ہوگا؟ ایک ذریعے کے مطابق حکومت نے ابھی چند دن قبل یونیورسٹی کیمپس میں ٹریفک کے اژدھام اور رکشوں کی بے تکی سروس کے بارے میں ایک مراسلہ ارسال کرکے اس میں کچھ پابندیاں عائد کرنے کی ہدایت کی تھی مگر حالت یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے سبب ٹریفک کی حالت مزید بگڑ گئی اب موجودہ حالت میں جبکہ انتظامیہ کے بقول طلباء کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں نصف ہے تو اندازہ لگائیں کہ تعداد دوگنی ہونے کی صورت میں کیمپس کے اندر کیا عالم ہوگا؟ جب اس وقت کسی سے اتنا نہ ہو سکا کہ رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں اور ٹیکسیوں کی بھرمار کو لگام دیں آنے اور واپسی کیلئے الگ الگ راستوں اور پارکنگ مقام کا تعین کریں کیمپس میں دن بھر بلاوجہ گھومنے پھرنے اور جگہ جگہ پارکنگ کرنے والی پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیوں اور رکشوں کو نکال باہر کردیں‘ ون ویلنگ ریس اور سکریچنگ  کرنے والوں‘ ریکارڈنگ اور کالے سٹیکر والوں کو حوالات کا راستہ سیدھا کردیں اور کیمپس میں محض بیس پچیس فورسٹروک رکشوں کے علاوہ باقیماندہ سینکڑوں اور ان کی روڈ نمبر2پر سروس کو یکسر ممنوع قرار دیں بصورت دیگر ایسی ناگفتہ صورتحال میں طلباء کی تعداد بڑھانے کا تو میں نہیں سمجھتا کہ کیسے سوچا جا سکتا ہے؟ اس بات کو نوٹ کرلینا چاہئے کہ یونیورسٹیاں محض پیسوں سے نہیں چلتیں اگر کسی کا یہ خیا ل ہوکہ وہ پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں اور رکشوں کی رجسٹریشن یا پاس یعنی اجازت نامے کی فیس کے چند پیسوں ٹکوں سے یونیورسٹی چلائینگے تو یہ کسی طرح بھی دانشمندی نہیں ہوگی بلکہ معاملہ فہمی اور دانشمندی یہ ہوگی کہ پشاور کے اس مثالی خطے(ماضی میں) کی حالت مزید ابتر اور دگرگوں ہونے سے محفوظ رہ جائے ورنہ حالت اس قدر بگڑ جائے گی کہ اسے کنٹرول کرنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہوگا یہ بات انتظامیہ اور اساتذہ دونوں نوٹ کرلیں۔