خدا خدا کرکے بالآخر یونیورسٹی ملازمین بالخصوص کلاس فور اور کلاس تھری کی غرباء اور مساکین پر مشتمل اکثریت کی فریاد سنی گئی۔ یعنی سال2021کے بجٹ میں اعلان شدہ 10فیصد اضافہ ان کی تنخواہوں اور پنشن کا حصہ بن گیا۔ یونیورسٹی کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے بعد سنڈیکیٹ نے بھی منظوری دیدی۔ مطلب یہ ہے بجٹ میں اعلان شدہ اضافے کو منظوری کیلئے کمیٹی اور پھر سنڈیکیٹ میں لیجانے کی ایک نئی روایت قائم کی گئی۔ البتہ اساتذہ کا بیس فیصد ٹیچنگ الاؤنس جس کا اعلان صوبائی بجٹ میں کیا گیا تھا ایک بار پھر سر دخانے کی نذر ہوگیا کیونکہ یہ بوجھ قدرے بھاری تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر کیا ہوگا۔؟ دس فیصد اضافی تنخواہ، دس فیصد پنشن اور اس طرح کچھ نہ کچھ الاؤنسز میں اضافہ یعنی کل ملا کر ہر ملازم کو اپنی تنخواہ کا پچاس فیصد یعنی نصف اضافہ دینا یونیورسٹیوں کے بس میں ہوگا یا منظوری کے باوجود بھی انتظار فرمائیے کی فضاء قائم رہے گی۔باخبر ذریعہ کے بقول حکومت کی طرف سے اضافی گرانٹ تو تاحال دور دور تک نظر نہیں آرہی اور یونیورسٹیوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ بجٹ کٹوتی اور کورونا کے ہاتھوں جامعات کے اپنے ذرائع آمدن مفلوج ہونے کے سبب جو بحران پیدا ہوا تھا یونیورسٹیاں اب تک اس میں پھنسی ہوئی ہیں۔ جہاں تک اخراجات میں کمی لانے اور اصلاحات کے ذریعے خسارے سے نکلنے اور ڈاؤن سائزنگ جیسی حکومتی بات یا موقف کا تعلق ہے تو جامعات کے حالات و واقعات اور اس میں ہر حکومت کی دخل اندازی کے نتائج سے باخبر حلقوں کے نزدیک حکومت کی یہ طفل تسلیاں، ہدایات اور احکامات جامعات کے اس عارضے کی دوا ہر گز نہیں بن سکتے جس میں یہ بیچاریاں گزشتہ چند سال سے مبتلا ہیں۔ سیدھی اور کھری بات تو یہ ہے کہ موجودہ مہنگائی بلکہ سوفیصد سے بھی زیادہ حددرجہ مہنگائی میں جامعات یا بہ الفاظ دیگر اعلیٰ تعلیمی بجٹ کو حسب ضرورت بڑھانا ہوگا، بصورت دیگر یونیورسٹیوں کی حالت جوں کی توں رہے گی۔ جامعہ پشاور کی موجودہ فضاء میں جب کہ78اساتذہ ترقیوں کے منتظر ہیں اور جن میں سے 45اساتذہ کا سال2019ء میں سلیکشن بورڈ بھی ہوچکا ہے یعنی اضطراب کی اس کیفیت میں جو کہ وہ انفرادی طور پر اور ٹیچر ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے یعنی دو طرح کا احتجاج کر رہے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا قانونی حق انہیں دینے میں بلا وجہ اور بلاجواز تاخیر کے سب متعدد ٹیچر ریٹائر بھی ہوگئے ہیں۔ کیا بیس فیصد ٹیچنگ الاؤنس کی ادائیگی میں مزید تاخیر سے اساتذہ کا پارہ مزید ہائی یا اوپر نہیں ہوگا۔؟ جامعات کے امور اور قواعد و ضوابط سے واقفیت رکھنے والے لوگ یونیورسٹی اساتذہ کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ حکومت نے جس اضافے کا اعلان خود اپنے بجٹ میں کیا ہے اس کیلئے گرانٹ کاحصول اساتذہ نہیں بلکہ انتظامیہ اور بالخصوص انتظامی سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ یہ ذمہ داری انتظامیہ اور ٹیچر ز کمیونٹی دونوں پریکساں طور پر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے بڑھتے مسائل اور موجودہ ناگفتہ بہہ حالت کی اصل اور بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ انتظامیہ اور فیکلٹی الگ الگ راستوں پر چل پڑی ہیں۔درحقیقت یونیورسٹی ملازمین کا چاہے وہ درس و تدریس سے منسلک ہیں،انتظامی امور سے یا کلاس فور اور کلاس تھری کی شکل میں معاون عملہ ہے ان سب کا بلکہ ان کے بچوں کابھی حال اور مستقبل یونیورسٹی کی آسودہ حالی، استحکام اور ترقی سے منسلک ہے۔ لہٰذا جامعہ میں ڈسپلن کے نفاذ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اسے مالی بحران سے نکالنے،قانون یعنی ایکٹ کی بلادستی قائم کرنے اور سبکدوش ملازمین کی پنشن کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنے کے غرض سے حقیقی معنوں میں ایک انڈومنٹ فنڈ کے قیام کیلئے سب کو یکجا ہو کرآگے آنا ہوگا۔ ورنہ مسائل، محرومیوں، اختلافات،مالی ابتری اور ڈسپلن کے فقدان جیسے مسائل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اس قدر اضافہ ہوگا کہ پھر یہ تمام لوگ انگشت بدنداں ہوکر کہیں گے کہ ارے یہ کیا ہوگیا۔؟
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے