آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کو ملک کے باقی صوبوں کے مقابلے میں ہر دور میں کئی حوالوں سے نمایاں انفرادیت اور اہمیت حاصل رہی ہے یہاں نہ صرف یہ کہ مختلف تہذیبوں اور قومیتوں کے لوگ موجود ہیں بلکہ کراچی کوفنانشل حب کے علاوہ منی کراچی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہرت ہر علاقے اور قومیت کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹا ہوا ہے دوسری طرف سندھ کا اس کی سیاسی قیادت کے مضبوط پس منظر کے باعث بھی اہم مقام رہا ہے جس میں بھٹو خاندان کا فیڈریشن اور قومی یکجہتی کے حوالے سے کردار سب کے سامنے رہا،یہاں کے شہری نہ صرف بہت باشعور ہیں اور مطمئن بھی مگر ساتھ میں وہ ملکی ترقی اور استحکام کیلئے پرعزم بھی ہیں۔اندرون سندھ کے بارے میں عام تاثر یہ رہا ہے کہ وہاں کا معیار زندگی ابتر اور گورننس کا نظام کمزور اور سست ہے تاہم زمینی حقائق اس تاثر سے کافی مختلف ہے اور اندرون سندھ بشمول تھرپارکر باقی صوبوں کے دیہاتی علاقوں کے مقابلے میں مواصلات‘ صحت‘ تعلیم اور علاقائی ترقی کے شعبوں میں بہت بہتر اور آگے ہے فرق یہ ہے کہ صوبائی حکومت یا عوامی نمائندے ذاتی اور سیاسی پبلسٹی پر توجہ نہیں دیتے اور ان کو ایک گلہ یہ ہے کہ ہمارے اچھے اقدامات‘ پالیسیوں اور منصوبوں کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے اس ضمن میں مشہور زمانہ تھرپارکر کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں نہ صرف یہ کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کام تیزی سے جاری ہے بلکہ بعض پراجیکٹس اس نوعیت کی ہیں جن کی تکمیل سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کو توانائی کے شعبے میں ناقابل یقین فائدہ ہوگا مثال کے طورپر تھرپار کر میں موجودہ صوبائی حکومت نے بعض دوسرے عالمی پارٹنرز یا اداروں کے تعاون سے کوئلے کے دو تین ذخائر پر تقریباً 5کھرب ڈالرز کی لاگت سے جو منصوبے شروع کئے ہیں ان میں ایک منصوبے نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے جبکہ دوسرا تیزی کے ساتھ زیر تکمیل ہے ماہرین کے مطابق صرف ان دو تین پراجیکٹس سے پاکستان میں 2025ء اور2030ء تک جو سستی بجلی پیدا ہوگی اس سے ملک کے کم از کم200برسوں کی ضرورتیں پوری ہونگی ان پراجیکٹس میں اس وقت 7000سے زائد لوگ ملازمتیں کر رہے ہیں جن میں 80 فیصد کا تعلق مقامی آبادی سے ہے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے ایک پراجیکٹ مقامی آبادی کو مفت بجلی دینے کے علاوہ 600 میگاواٹ کی بجلی نیشنل گریڈ کو فراہم کر رہا ہے جبکہ دوسرے کی صلاحیت 5000 میگاواٹ سے زائد ہے ضلع میں مقبول عام خبروں اور تجزیوں کے برعکس صحت اور تعلیم کے متعدد سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ سڑکوں کو ملک بھر میں مثالی قرار دیا جا سکتا ہے تقریباً آدھی آبادی ہندوکمیونٹی پر مشتمل ہے جن کو نہ صرف مکمل تحفظ‘ آزادی اور ترقی کے مواقع حاصل ہیں بلکہ وہ اس علاقے کے علاوہ پورے سندھ کے سٹیک ہولڈرز کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں‘ سندھ کے ہرشہر میں صحت کی سہولیات بہت بہتر ہے تاہم سکھر‘ خیرپور اور کراچی میں متعدد سرکاری ہسپتال اپنی سہولیات‘ مشینری اور میڈیکل سٹاف کے باعث نہ صرف ملک بلکہ جنوبی ایشیاء کی انڈیکس میں سب سے نمایاں اور بہتر ہیں خیرپور کے علاقے گمبٹ میں ہسپتالوں کا ایک ایسا حب موجود ہے جہاں مہنگی ترین امراض کا جدید سہولیات کے ساتھ علاقائی امتیاز کے بغیر مفت علاج کیا جاتا ہے سکھر کے ہسپتالوں سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مریضوں کی بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے تو دوسری طرف یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں دوسرے صوبوں کے سٹوڈنٹس فائدہ اٹھائے دیکھے جا سکتے ہیں سکھر میں عالمی معیار کی کئی یونیورسٹیاں موجود ہیں جبکہ اس محدود شہر میں اس وقت تین مزید یونیورسٹیاں زیر تکمیل ہیں‘ اس سسٹم کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ متعدد بڑے ہسپتالوں اور یونیو رسٹیوں نے صوبے میں ایک چین بنایا ہے جسکے ذریعے ایک مربوط نظام کے تحت ان تمام علاقوں کو کنکٹ کیا جاتا ہے صوبے کے عوامی نمائندے دوسروں کے برعکس اپنے ووٹرز اور شہریوں کیلئے دستیاب ہوتے ہیں اور پارٹی قائدین ان کی کارکردگی کی پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں‘مجموعی صورتحال‘ کارکردگی اور اثرات مقبول عام تبصروں کے برعکس کافی بہتر ہے،سندھ سب کا ہے اور اسکے ذریعے قومی یکجہتی کو فروغ بھی دیا جاسکتا ہے۔