پاکستان کے سیاحتی مرکز مری میں گزشتہ دنوں روڈ بلاک اور بدترین ٹھنڈ کے باعث دو درجن کے قریب سیاحوں کی اموات نے پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے جاں بحق ہونیوالے میں ضلع مردان کے چار دوستوں کے علاوہ ضلع تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس آفیسر سمیت ان کے 4 بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں۔ مری ایک تنگ وادی اور محدود علاقہ ہے اور اس کے انتظامات کبھی بھی مثالی نہیں رہے ماضی میں سیاح مقامی انتظامیہ اور ہوٹل مالکان کے منفی روئیے کے بارے میں نہ صرف مسلسل شکایات کرتے دیکھے گئے بلکہ یہاں مختلف مواقع پر بعض تلخ واقعات بھی تواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں اس کے باوجود سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں کا رخ اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اسلام آباد سے صرف ایک دو گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے اب کے بار کہا جارہا ہے کہ برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لئے تقریباً 3 لاکھ افراد نے مری کا رخ کیا جبکہ برفانی طوفان نے وادی اور اس کے نظام کے علاوہ سیاحوں کی تعداد کے باعث بہت سی مشکلات پیدا کیں اور حالات قابو سے باہر ہو گئے انتظامیہ نے اس کے باوجود لاتعداد گاڑیوں کو مری میں داخل ہونے دیا کہ ان کو وادی کی کھپت (Capacity) اور غیر معمولی برفباری کے نتائج کا علم تھا شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ، ماہرین اور سیاسی رہنما اس سانحے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال رہے ہیں اور اسی تناظر میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان بھی کردیا ہے دوسری کوتاہی یہ ہوئی کہ مقامی انتظامیہ اور اسلام آباد کے متعلقہ حکام نے بھی بعض سیاحوں اور ان کے رشتہ داروں کے مسلسل رابطے کے باوجود پھنسے ہوئے سیاحوں کو نکالنے کے لئے ہنگامی اقدامات نہیں کئے اور یہ لوگ صبح کا انتظار کرتے رہے، مقامی آبادی بھی حسب سابق اس صورتحال میں سیاحوں کی مدد سے لاتعلق رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 25 افراد انتہائی بے بسی کی حالت میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سیاحت کو سخت دھچکا لگا اس کے علاوہ گورننس کا ایشو اور متعلقہ اداروں کی نااہلی اور کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے جانے لگے۔ واقعات، حادثات اور سانحات ہوتے رہتے ہیں تاہم غفلت اور اداروں کی نااہلی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لئے لازمی ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کے بعد غفلت برتنے والے اداروں یا افراد کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جائے اس کے علاوہ جن ہوٹل مالکان نے اس سانحہ اور صورتحال کے دوران لالچ میں آکر مدد کرنے کی بجائے مصیت زدہ سیاحوں کو لوٹنے کی بدترین مثالیں قائم کیں ان کی ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کو سیل کیا جائے جبکہ متاثرین کے لئے شہداء پیکج کے طرز پر امداد کا فوری اعلان کیا جائے۔ جس وقت مری میں یہ صورتحال ایک بڑے سانحہ کو جنم دے رہی تھی اسی دوران ایسے ہی حالات کا قریبی علاقے گلیات میں خیبرپختونخوا کی انتظامیہ،ہوٹل مالکان اور سیاحوں کو بھی سامنا تھا، دونوں علاقے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں اور گلیات میں بھی سیاحوں کی بڑی تعداد نہ صرف موجود تھی بلکہ سینکڑوں گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی تھی تاہم حیرت انگیز طور پر وہاں کی انتظامیہ، ہوٹل مالکان اور مقامی آبادی کا رویہ،کردار اور طرز عمل بالکل مختلف، ذمہ دارانہ اور مشفقانہ رہا، حکومت خیبرپختونخوا بہت الرٹ رہی،گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام جاگتے رہے جبکہ 1122 کے اہلکاروں سمیت پولیس اور دیگر ادارے متحرک رہے، ہوٹل مالکان اور مقامی آبادی نے بھی مری والوں کے برعکس یکسر مختلف رویہ اپنایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں پر کوئی بڑا جانی نقصان یا سانحہ سامنے نہیں آیا اس کو سراہا جانا چاہئے کیونکہ خیبرپختونخوا کا حکومتی،سیاسی اور سماجی کلچر ہر دور اور ہر جگہ دوسرے صوبوں اور علاقوں کے مقابلے میں مختلف رہا ہے اور اسکی ستائش کے علاوہ اسکی تقلید بھی ہونی چاہئے ایسے ہی مثبت طرز عمل کے عملی مظاہرہ ہم سوات، دیر، چترال اور وزیرستان کے سیاحتی مراکز میں بھی وقتاً فوقتاً دیکھتے آئے ہیں۔