سوشل میڈیا بے لگام کیوں؟

اگر آپ کسی بیماری کی وجہ سے صاحب فراش ہیں یا اگلے روز آپ کسی امتحانی پرچے کی تیار ی میں مصروف ہیں اور عین اسی وقت آ پ کے موبائل سیٹ کی گھنٹی بجے اور آپ کو کسی نے میسج وائرل کیا ہو یا پھر فون پر بات کرنا چاہتا ہو تو آپ کیا محسوس کریں گے، پہلا سوال جو آپ کے ذہن میں آئے گا وہ یہ ہوگا کہ کیا جس موصوف نے یہ حرکت کی ہے وہ اس کو اگلی صبح تک معرض التوا میں نہیں رکھ سکتا تھا، کیا ایسا کرنے سے کوئی آفت آجاتی، اس قسم کی حرکات میں ملوث افراد کو آپ کیا خطاب دیں گے۔پڑھے لکھے ان پڑھ یا کچھ اور۔ یہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔ آپ خود ہی اس کا فیصلہ کیجئے۔ سوشل میڈیا یقینا ایک بہت بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے آزادی کا مطلب یہ بالکل نہیں ہوتا کہ وہ بے لگا م ہو۔ہم سنسر شپ کی وکالت بالکل نہیں کررہے، تاہم اس ملک میں اخلاقی اقدار کے فروغ کیلئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے تمام ارباب بست کشاد سر جوڑ کر سوشل میڈیا کو صحت مندانہ پیرائے میں ریگولیٹ کرنے کیلئے آپس میں ایک بحث و مباحث کا سلسلہ شروع کردیں اور ایک ضابطہ اخلاق مرتب کریں کہ جس کا پھر سختی سے اطلاق ہو۔ ایک عرصے سے ہم یہ محسوس کررہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جو بے لگام آزادی ہے ہر خاص و عام کو میسر ہے اس کا لوگ ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور نہایت ہی اہم حساس نوعیت کے اہم معاملات پر جو حاشیہ آرائی کرتے ہیں وہ قومی مفادات کے بھی خلاف ہے اور معاشری اقدار کے بھی۔جس سے ملک میں انتشار کی فضاء قائم ہورہی ہے جس کاتدارک حد درجہ ضروری ہے۔ یہ اس ملک کے ارباب بست کشاد کا کام ہے کہ وہ اس نازک اور اہم مسئلے پر سر جوڑ کربیٹھیں اور ایک ایسا ضابطہ عمل تشکیل دیں کہ جس کے ذریعے اس انتشار کی کیفیت کو روکا جا سکے۔ اب کچھ تذکرہ بین الاقوامی حالات کا ہوجائے جہاں روس اور امریکہ کے درمیان مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے ہیں جس کی پہلے سے ہی توقع کی جارہی تھی۔ کیونکہ دونوں ممالک کے موقف میں زمین و آسمان کافرق ہے۔ نائب وزراء خارجہ کی سطح کے یہ مذاکرات اس حوالے سے بھی اہم تھے کہ ان دنوں یوکرین کے مسئلے پر کافی لے دے ہورہی ہے اور جس سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں۔روس کا موقف ہے کہ وہ اپنی سرحدات کے قریب کسی نیٹو ملک کو برداشت نہیں کریگا اور نہ ہی ان ممالک میں نیٹو ہتھیار نصب کرنے کی اجازت دیگا۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی روس کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ روس اور چین نے مشترکہ پالیسی اپنا کر امریکہ کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور وہ اب کسی بھی بہانے چاہتا ہے کہ ان ممالک کو بھی چین سے نہ بیٹھنے دے۔ یورپ میں خاص کر وہ روس کی طرف سے حملے خطرے کو یورپی ممالک پر اپنی تسلط جمانے اور ان کو امریکی چھتری تلے رکھنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔مگر اب دنیا بد ل گئی ہے اور نہ صرف یورپ میں تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگی ہیں بلکہ وہاں پر یورپ کی الگ سیکورٹی پالیسی کے حوالے سے بھی باتیں ہورہی ہیں۔ ایسے میں امریکہ نے یوکرین کے مسئلے کے ذریعے میدان گرم کررکھا ہے۔ دوسری طرف اکثر یورپی ممالک امریکی مداخلت کے خلاف ہیں اور ناروے سمیت کئی ممالک روس کے ساتھ کشیدگی کے حق میں نہیں ہیں۔