جامعہ پشاور‘ مجوزہ کمیٹیاں 

پاکستان کے سیاسی اور انتظامی مزاج کی یہ کیفیت تاریخ سے اچھی طرح واضح اور ثابت ہے کہ جس کام کی انجام دہی مقصود نہ ہو اسے کمیٹی یا کمیشن کے حوالے کیا جاتا ہے یہ کمیٹی والی روایت عرصہ سے چلی آرہی ہے پشاور یونیورسٹی کے انتظامی سربراہ نے جامعہ کو خسارے سے نکالنے‘ پنشن کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنے‘ یونیورسٹی کا درجہ بڑھانے جبکہ دفاتر اور تدریسی شعبہ جات میں ملازمین کے اٹینڈنس(حاضری) کو مقررہ وقت پر یقینی بنانے کیساتھ ساتھ جن دوسرے مسائل کے حل کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینے کا جو ارادہ ظاہر کیا ہے یونیور سٹی کے بہی خواہ حلقوں اور اساتذہ نے اسے ایک خوش آئند امر قرار دیتے ہوئے محض خواہش اور تجویز یعنی ارادے پر اکتفا کرنے کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے بہی خواہ حلقوں کی خواہش کے مطابق ان مجوزہ کمیٹیوں میں ایک کمیٹی ایسی بھی ہونی چاہئے جو کہ فیکلٹی کی واضح اکثریت اور یونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص انتظامی سربراہ کو رسہ کشی اور مزاحمت کی موجودہ کیفیت سے نکال کر یکجاکر دیں جبکہ ایک کمیٹی کو جامعہ کی صفائی ستھرائی اور ٹریفک کی بدترین حالت سے نمٹنے کی ذمہ داری حوالے ہو بہی خواہوں کے مطابق خواہشات تجاویز اور سفارشات اپنی جگہ مگر یونیورسٹی کو مسائل اور بحرانوں سے نکال کرحقیقی معنوں میں ملک کی قدیم درسگاہ بنانے کیلئے عملی کام اور ٹیم ورک کے ذریعے نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت جس قدر اس وقت محسوس کی جارہی ہے شاید اس سے پہلے نہ تھی جامعہ کے انتظامی سربراہ کا یہ اندیشہ بجا ہے کہ جامعات کی درجہ بندی میں ملک اور صوبے کی نئی نویلی یونیورسٹیاں صف اول میں آرہی ہیں جبکہ ملک کی قدیم درسگاہ کارینکنگ میں دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا؟ ویسے اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے رینکنگ یا درجہ بندی کے امور اور پراسس سے واقف لوگ جامعات کی درجہ بندی کو اس لئے اہمیت نہیں دے رہے ہیں کہ جامعہ پشاور میں یکم جولائی2020ء سے 30جون2021ء تک481 ریسرچ سکالرز نے ایم فل جبکہ146 نے ڈاکٹریٹ یا پی ایچ ڈی کی تحقیق مکمل کرکے فارغ ہوگئے ہیں جو کہ صوبے کی کسی یونیورسٹی سے تو کیا ملکی سطح پر بھی ایک ریکارڈ اور بہتر کارکردگی کی واضح مثال ہے مطلب یہ کہ درجہ بندی کیلئے اگر تحقیق اور زیادہ تدریسی شعبہ جات کو بنیادی شرط اور معیار قرار دیا جائے تو پھر پشاوریونیورسٹی اس  دوڑ میں پیچھے کیوں رہ جاتی ہے؟ یونیورسٹی اساتذہ کے  منتخب نمائندوں کے مطابق وہ جامعہ کے انتظامی سربراہ کی کمیٹیوں کی تشکیل کی تجویز اور اسکے ذریعے جامعہ کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کی خواہش کو عملی شکل میں دیکھنے کے منتظر ہیں اگر انتظامی سربراہ حقیقتاً مخلص اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کیلئے تیار ہوں تو وہ بھی اس سعی اور تگ ودو میں پیچھے نہیں رہیں گے قصہ کوتاہ یہ کہ یونیورسٹی انتظامیہ فیکلٹی اور نان ٹیچنگ سٹاف تینوں کو یہ بات بلکہ حقیقت ذہن نشین کرنی چاہئے کہ یونیورسٹی کے مسائل انہی کو حل کرنا ہے اگر کوئی اس کا منتظر ہو کہ حکومت یا کوئی اورآکر جامعہ کو کندھا دینگے تو یہ محض خام خیالی ہوگی جہاں تک دفاتر اور شعبہ جات میں مقررہ وقت پر حاضری یقینی بنانے کی بات ہے تو یہ طریقہ کار اور پابندی نان ٹیچنگ سپورٹنگ سٹاف ایڈمنسٹریٹیو افسران اور اساتذہ کیلئے یکساں ہونی چاہئے بصورت دیگر امتیازی طرز عمل سے بہتر جذبات اور مثبت نفسیات پیدا نہیں ہوں گی اور یوں کشمکش رسہ کشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جو فضا اس وقت قائم ہے وہ بدستور قائم رہے گی۔