کچھ کر دکھانے کی سعی

کہتے ہیں کہ جامعہ پشاور سال 2021ء کے وسط تک مختلف مالیاتی ادارو ں کی 769ملین روپے مقروض تھی جو کہ اب نہیں رہی یونیورسٹی کے ٹریژرری سیکشن کے اہلکار موجودہ وائس چانسلر کی محنت اور کارکردگی کا اعتراف کررہے ہیں اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جامعہ کے موجودہ سربراہ نے اپنے اثر و رسوخ رابطوں اور جہد مسلسل کی بدولت گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت سے ایک بلین اور 30کروڑ گرانٹ کا حصول بھی ممکن بنایا۔ غالباً یہی سبب ہے کہ یونیورسٹی جو کچھ عرصہ قبل تک محض بیسک پے کی ادائیگی کی ناگفتہ بہہ مالی ابتری کی پوزیشن پر آگئی تھی اب نہ صرف پوری تنخواہیں اورمراعات یا الاؤنسز دینے کے قابل ہوگئی ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی فریاد اور احتجاج میں بھی واضح کمی واقع ہوئی ہے ایک ایسے وقت میں جب کورونا کے ہاتھوں ملک کی معیشت سسک رہی ہے ملک قرضوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ اب اومی کرون بھی حملہ آور ہونے کیلئے پر تول رہا ہے جامعہ پشاور کو تقریباً 76کروڑ روپے قرضے کی دلدل سے نکال کر مالی استحکام طرف لے جانا یقیناً ایک ایسی کارکردگی ہے جس کی بغیر کسی سیاسی تنظیمی اور گرو ہی وابستگی کے ستائش ہونی چاہئے ایسے میں بہتر کار گزاری کی ایک خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت نے مالی سال 2021-22ء کے بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافے کا جو اعلان کیا تھا اور جو اضافہ یکم جولائی سے یونیورسٹی کے ذمے واجب الادا تھا وہ بھی محض ایک یا دو مہینوں کا نہیں بلکہ پورا ادا کردیا گیا ہے اس کے بعد اب اساتذہ کے لئے صوبائی حکومت کے اعلان کردہ 20فیصد ٹیچنگ الاؤنس جبکہ بعض دوسرے الاؤنسز با لخصوص ہاؤس سبسڈی وغیرہ میں ہوینوالے قدرے اضافے کی ادائیگی کی باری ہے جبکہ وائس چانسلر کے وژن کو عملی جامعہ پہنانے کے دوسرے امور یعنی پنشن انڈومنٹ فنڈ کو حقیقی معنوں میں فنڈ بنانے میں حکومتی تعاون کا حصول ممکن بنانا اور ساتھ ہی جامعہ کا درجہ بڑھانا جیسی مہمات اس کے بعد شروع ہوں گی اب یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جامعہ کے موجودہ سربراہ کا تین سالہ ٹینور یا مدت ملازمت کا خاتمہ اس مشن یا مہم کی تکمیل کی راہ میں آڑے آئے گا یا نہیں؟ ویسے ہر ادارہ جاتی سربراہ بالخصوص وائس چانسلر کو اپنے وژن کے مطابق اپنے مشن کی تکمیل کیلئے وقت دینا چاہئے اور شاید اس لئے اعلیٰ تعلیمی امور اور جامعات میں ہونیوالے کام کے پراسس سے واقف لوگوں کی رائے ہے کہ وائس چانسلر کی مدت ملازمت کم از کم پانچ سال ہونی چاہئے اس ضمن میں یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ مسائل کے حل اور آگے بڑھنے کیلئے ٹیم ورک کی غرض سے کمیٹیوں کی تشکیل کا کام تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے البتہ اس میں کسی قسم کی نظریاتی اور گروہی وابستگی کو جگہ دینا کسی طرح مناسب نہیں ہوگا بلکہ خدانخواستہ اس طرح کا طرز عمل مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔جامعہ کے ہمدرد حلقے یہ بھی چاہیں گے کہ یونیورسٹی کے انتظامی سربراہ بڑے بڑے کاموں پر مشتمل اپنے مشن کی تکمیل کی سعی میں وہ چھوٹے چھوٹے مسائل بھی نظر انداز نہ کریں جو کچھ عرصہ قبل تک تو بالکل ہی غیر اہم اور نہایت چھوٹے تھے مگر اب وقت کیساتھ ساتھ گھمبیر شکل اختیار کررہے ہیں مثال کے طورپر ٹریفک‘ صفائی‘ ہریالی اور کینٹینوں میں نہایت ناقص خوردنی اشیاء کی من مانی قیمتوں کا وصول کرنا سرفہرست شمار کئے جا سکتے ہیں اس طرح ترقیوں اور سٹاف کی کمی کو دور کرنے کیلئے اگر سلیکشن بورڈ کارکا ہوا سلسلہ بھی بحال ہو جائے تو اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف بالخصوص افسران کے گلے شکوے بھی دور ہو جائیں گے یہ بات بھی نوٹ کرلینی چاہیے کہ یونیورسٹی کو ترقی و استحکام سے ہمکنار کرنے کی کوششوں میں یونیورسٹی کیمپس کو پشاور شہر اور گرد و نواح کے ماحول خصوصاً ٹریفک کی ناگفتہ بہہ حالت میں تبدیل ہونے سے بچانا بھی ایک بڑی کامیابی تصور ہوگی بصورت دیگر ترقیاں بھی ہونگی سٹاف کی کمی بھی دور ہوگی جبکہ جامعہ مقروض بھی نہیں رہے گی لیکن کیمپس کا ماحول تباہی سے ہمکنار ہوگا۔