صوبے میں بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں یا بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے شیڈول کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے جسکے مطابق باقی ماندہ اضلاع میں 27مارچ کو پولنگ ہوگی جبکہ حتمی نتائج کا سرکاری اعلان یکم اپریل کو کیا جائیگا کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی7سے11 فروری تک جمع کرائے جاسکیں گے جبکہ ان کی جانچ پڑتال14سے16فروری تک ہوگی23 فروری کو امیدواروں کی فہرست جاری کی جائیگی جبکہ28فروری کو انہیں انتخابی نشانات الاٹ کئے جائینگے اب کی بار بھی اعلیٰ عدلیہ کے ایک فیصلے کے مطابق بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہونگے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام پارٹیوں نے اس مرحلے کیلئے پہلے ہی سے اپنی تیاریاں اور سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ دوسرے مراحل میں بھی وہ کامیابی حاصل کرے گی جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے والی غلطیاں نہیں دہرائی جائینگی ٹکٹیں میرٹ کی بنیاد پر مشاورت سے دی جائیں گی اور یہ کہ ناراض کارکنوں اور عہدیداروں کو اعتماد میں لیا جائے گا دوسری طرف اپوزیشن کا موقف ہے کہ تحریک انصاف اور اسکی حکومت عوامی مقبولیت بوجوہ کھو چکی ہیں اسلئے انکو دوسرے مرحلے کے دوران بھی شکست ہوگی پہلے مرحلے کے دوران صوبے کے18اضلاع میں جے یو آئی ف اکثریتی پارٹی کے طورپر سامنے آئی تھی جبکہ اے این پی اور پیپلز پارٹی بھی خاصی سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور اپوزیشن کے مجموعی ووٹ بنک میں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔‘28فروری کو جن علاقوں یا اضلاع میں الیکشن ہونگے ان میں ہری پور کے بغیر پوراہزارہ ڈویژن‘ بونیر کو چھوڑ کر پورا ملاکنڈ ڈویژن جبکہ چار قبائلی اضلاع شامل ہیں اسلئے کہا جا سکتا ہے کہ حکمران جماعت کیلئے یہ علاقے اور اضلاع پہلے مرحلے کے مقابلے میں زیادہ ”خطرناک“ ثابت ہو سکتے ہیں‘ چار قبائلی اضلاع میں جے یو آئی دعویٰ کرتی ہے کہ یہاں پر وہ اس کے امیدوار کامیاب ہونگے کیونکہ ان علاقوں میں یہ پارٹی تنظیمی طور بہت فعال ہے،دوسری طرف ہزاروں ڈویژن میں مسلم لیگ کافی مضبوط ہے اور وہاں کے بٹگرام‘ مانسہرہ اور بعض دیگر علاقوں میں جے یو آئی اور پی پی پی بھی کافی ووٹ بنک رکھتی ہیں ملاکنڈ ڈویژن میں اگرچہ تحریک انصاف2018ء کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرچکی تھی تاہم وہاں مسلم لیگ ن جے یو آئی ف اے این پی‘ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کا بھی نہ صرف یہ کہ ہولڈ رہا ہے بلکہ صوبائی اسمبلی میں انکی نمائندگی بھی موجود ہے اور نتائج 2018ء کے الیکشن سے یکسر مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ماہرین اس الیکشن کو اگلے عام الیکشن کے متوقع نتائج کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حکمران جماعت اس حوالے سے کافی حساس نظرآتی ہے۔ بحیثیت مجموعی گزشتہ مرحلے میں تحریک انصاف کے حاصل کرد ہ ووٹوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک برقرار ہے اور اب بھی ووٹرز پر اس پارٹی کی گرفت مضبوط ہے دیکھتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ کیا نتائج لاتا ہے اور اس کے آنے والے عام انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔