اور اب اومیکرون 

کورونا نے تعلیم سے جو سلو ک کیایہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بغیر امتحان کے پچھلی کلاس سے اگلی کلاس میں جا کر بیٹھنا بھی کورونا کا ایک کارنامہ تصور کیا جا سکتا ہے بعض سیانے کہتے ہیں کہ وقت جس قدر فروری اور مارچ کی جانب بڑھتا جائے گا اس کے ساتھ ساتھ وباء میں بھی عجیب و غریب اضافہ ہوگا یا اگر نہ بھی ہوگا تب بھی اس کا پرچار آئے روز بڑھتا جائے گا، ویسے یہ بات بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ کورونا ہو یا اومی کرون یا کوئی اور قسم کا وائرس ہمارے ہاں سیاسی جلسو ں جلوسوں، دھرنوں اور پشاور کی بی آر ٹی کا بال تک بیکا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا، البتہ جو لوگ محض تعلیم، محنت مزدوری اور اپنی روزمرہ زندگی کی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کیلئے کورونا وباء ماضی قریب کی طرح حال اور مستقبل قریب میں بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کیلئے احتیاطی تدابیر یا بہ زبان حکومت ایس او پیز کی پابندی جیسے پہلے لازمی تھی اس کے بعد بھی ہوگی مطلب یہ کہ اگر پابندیوں اور لاک ڈاؤن یا کم از کم سمارٹ لاک ڈاؤن کی ضرورت بالائی سطح پر ناگزیر سمجھی گئی تو نشانہ صرف اور صرف وہی لوگ ہوں گے جن کا نہ تو سیاسی سرگرمیوں، جلسوں اور دھرنوں سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی وقت کے ضیاع اور بیروزگاری کے متحمل ہو سکتے ہیں جہاں تک تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں کا تعلق ہے تو یہ امر بے جا نہیں کہ جامعات بیچاریاں تو اس سے قبل کی بندشوں کے اثرات سے بھی تاحال باہر نہیں نکلی ہیں اگر دوبارہ پابندیاں آتی ہیں تو میرے خیال میں تعلیم کو خیر باد کہنا ہی ناگزیر ہوگا چاہے طلباء اور والدین کے لئے کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو، حکومت نے تو ایس اوپیز کا پرچار کرکے اپنے خیال میں اپنی ذمہ داری پوری کرلی لہٰذا اب گیند جامعات کے کورٹ میں ہے اور یونیورسٹیوں کی حالت اور انتظام و انصرام تو تاحال کچھ اس قدر قابل دید ہے کہ ماسک، ویکسی نیشن اور سماجی فاصلے جیسی احتیاطی تدابیر کا نام و نشان تدریسی شعبہ جات اور نہ ہی دفاتر میں نظر آتا ہے اور نہ ہی کینٹینوں اور تعلیمی نوعیت کی نشستوں میں کوئی اس ضرورت کو محسوس کررہے ہیں۔ نتیجتاً معاملہ ایک بار پھر تعلیمی لاک ڈاؤن کی جانب جائے گا اور اگر ایسا ہو جائے تو لازماً یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن نہ چاہتے ہوئے بھی مفلوج ہونگے تنخواہوں پنشن اور مراعات کی ادائیگی کے لئے مالی وسائل کے فقدان کا مسئلہ پھر سر اٹھائے گا اور یوں ملازمین بالخصوص کلاس فور اورکلاس تھری سڑکوں پر ہونگے جہاں تک کوئی پیکج دے کر تعلیم کو مزید بربادی سے بچانے کا سوال ہے تو غالباً یہ طریق اگر کہیں اور ہوگا تو ممکن ہے مگر کم از کم ہمارے ہاں کوئی یہ لاحاصل توقع نہ رکھے کہ تعلیم کو بھی کوئی پیکج مل جائے گا، دراصل یہ تعلق دلچسپی اور ترجیح کی بات ہوتی ہے اب اگر تعلیم کسی کا مسئلہ ہی نہ ہوتو اسے بچانے کی ضرورت ہی آخر کیا ہے؟ اس وقت تک جو مشاہدہ ہے اس کے مطابق یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یونیورسٹی کے لوگ یعنی طلباء، اساتذہ انتظامیہ سپورٹنگ سٹاف اور یہاں پر کاروبار کرنیوالے سبھی احتیاطی تدابیر کے معاملے میں بالکل اسی طرح آزاد اور خود مختار نظر آرہے ہیں جیسے کیمپس میں چلنے والے ٹو سٹروک اور فور سٹروک رکشے پک اینڈ ڈراپ گاڑیاں پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیاں اور بھکاری کسی کو جوابدہ نہیں، مطلب یہ کہ پوچھ گچھ ہے نہ کوئی طریق اور نہ ہی کوئی قاعدہ ضابطہ؟ المیہ یہ بھی ہے کہ اس ناگفتہ حالت کے بارے میں اگر کوئی بہی خواہ تنقید برائے تعمیر کی نیت سے اصلاح و احوال کی ضرورت پر زور دیتا ہے تو انتظامیہ کے نزدیک سب سے بڑا حریف تصور کیاجاتا ہے۔ اب جبکہ حکومت کی طرف سے ویکسی نیشن کیلئے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف پر مشتمل ٹیموں نے جامعات میں پہنچ کر جامعہ پشاور سے ویکسی نیشن کا آغاز کردیا گیا ہے تو ایسے میں انتظامیہ اور والدین دونوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ طلباء طالبات اساتذہ معاون عملے اور انتظامی افسران کی ویکسی نیشن اور احتیاطی طریق کے مطابق ویکسی نیشن کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تکمیل کو یقینی بنائیں بصورت دیگر حالت مزید بگڑنے پر اس اعلان میں کوئی دیر نہیں لگے گی کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے وباء کی پانچویں لہر میں شدت کے پیش نظر تعلیمی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ اس پر نظر ثانی کا فیصلہ سنٹر کے آئندہ اجلاس میں حالات کا جائزہ لیکر کیا جائے گا اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شق کے طورپر دفاتر میں 50فیصد حاضری اور گھروں پر کام کرنے کا ضمنی اعلان بھی آسکتا ہے جہاں تک نصف ملازمین کو گھروں پر رہ کر کام کرنے کی بات ہے تو یہ قدرے عجیب اس لئے لگتی ہے کہ اس نوعیت کا کام تو لازماً کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے ذریعے ہوگا یعنی ہم جیسے لوگوں کا نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ والوں کا کام ہے جبکہ گزشتہ تقریباً دو سال کے دوران لگائی گئی پابندیوں اور تعلیمی لاک ڈاؤن میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ ہم لوگ گھروں پر رہ کر کتنا دفتری کام کرتے ہیں؟ البتہ یہ مشاہدہ اظہر من الشمس ہے کہ گھروں پر رہنے کے دوران ہماری نجی سرگرمیوں غمی خوشی اور کاروبار میں کورونا وائرس ہمارے سائے کے قریب سے گزرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔