اگلے روز بلوچستان میں دو مقامات پردہشت گردوں کے ایک حملے کو ناکام کرنے کی کوشش میں کئی جانوں کی قربانی دینی پڑی۔ اس قسم کے واقعات میں اضافہ کے خدشات پہلے سے ہی ظاہر کئے گئے تھے۔ کیونکہ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعدیہاں سے اس نے بوریا بستر گول تو بظاہر کرلیا ہے تاہم اپنے مفادات کے تحفظ کا کھیل ا س نے اب بھی جاری رکھا ہے اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی صورت میں وہ یہاں اپنی موجودگی کا جواز تراشنے میں مصروف ہے۔ساتھ ہی وہ چین اور پاکستان کے تعاون سے پروان چڑھنے والے منصوبے سی پیک میں رخنہ ڈالنے کی کوششوں میں ہے، یہ انہی کوششوں کی ایک جھلک ہے جس کے نتیجے میں ایک بار پھر دہشت گردی کے ایکا دکا واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک نے بھی سیاسی میدان کو گرم کردیا ہے اور حکومت کی توجہ اس ایشو کی طرف موڑ دی ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر کچھ معاملات ہیں تو انہیں گفت و شنید اور سیاسی مفاہمت سے حل کیا جائے اور ایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں کہ حکومت کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہو اور ملک دشمن عناصر کو اپنے چال چلنے میں سہولت ملے کیونکہ سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ جو بھارت نے تحریک طالبان انڈیا ٹی ٹی آ ئی کے نام سے جو تنظیم بنائی ہے یہ ایک طرف اگر انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف سازش ہے اور ان پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کی طرف ایک قدم ہے تو دوسری طرف وہ پورے خطے کیلئے درد سر بن سکتی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی یہ پاکستان کے خلاف نئی چال ہو سکتی ہے اس کا ایک وسیع پس منظر ہے کیونکہ بھارت کو بھارتی جنتا پارٹی نے جس قسم کی انتہا پسندی کی پالیسی سے روشناس کرا دیا ہے اس کا منطقی انجام بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی صورت میں نکلے گا۔ بھارت کا بھی یہی انجام ہونا ہے اور اسے اس کا بخوبی اندازہ ہے اس لئے تو وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی اور نفرت کی فضاء پیدا کرکے اپنے ملک میں ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے رہاہے۔تاکہ اس کی آڑ میں اپنے عدم استحکام سے توجہ ہٹا سکے۔اسے بد قسمتی سمجھئے کہ ہمیں ایک ایسا پڑوسی ملک ملا ہے جس کے پاس اپنے پڑوسی ممالک کیلئے کوئی خیر خواہی نہیں، نیپال ہے کہ سری لنکا، چین ہے کہ بنگلہ دیش ہر پڑوسی ملک کے ساتھ ا س کے تعلقات کشیدہ ہیں او رپاکستان کے ساتھ تو اس کی دشمنی اول روز سے ہے۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ان حالات میں جب کہ اس ملک کو سیاسی استحکام کی سخت ضرورت ہے ۔ ہمارے دشمنوں نے ایک مرتبہ پھر اس ملک میں تخریب کاری کیلئے کمر کس لی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری افواج کو مختلف محاذوں پر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے بھلے وہ لائن آف کنٹرول ہو بلو چستان ہو یا خیبر پختونخوا کے ساتھ ملحقہ سابقہ قبائلی علاقہ بلوچستان کے بارے میں بہت پہلے ہم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ نہ امریکہ چاہے گا اور نہ بھارت کہ گوادر ایک کامیاب بین الاقوامی بندرگاہ کی شکل اختیار کرے اور سی پیک کے تحت بلوچستان کے اندر وسیع پیمانے پر زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی منصوبے مکمل ہوں اور اس علاقے کے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے اور وہ مختلف حربوں اور تخریبی کاروائیوں کے ذریعے بلوچستان کے امن عامہ کو حتی الوسع نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت دیکھا جائے توایک عرصے سے یوکرائن میں جنگ کا جو لاوا پک رہا ہے اب وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور اگر روسی صدر پیوٹن اور یورپ کے دیگر رہنماؤں نے دوراندیشی کا مظاہرہ نہ کیا تو یہ لاوا پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے یورپ میں بھی اگر جنگ شروع ہوتی ہے توپوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔کیونکہ اس سے ایک طرف اگر توانائی کا بحران پیدا ہوگا کہ تودوسری طرف اس سے ایک بار پھر عالمی سطح پر طلب او ررسد کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ جس سے ایک بار پھر مہنگائی کا طوفان آئے گا جس سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک یکساں متاثر ہونگے۔ اس لئے ضرروری ہے کہ عالمی برادری اس طرف توجہ دے اور روس کے ساتھ ان مسائل پر بات کرے جس کے حوالے سے روس کے خدشات ہیں اور اس میں پوری عالمی برادری کا بھلا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ