پاکستانی سائنسدان کا توانائی کے میدان میں بڑا کارنامہ

کراچی: پاکستانی نوجوان سائنسدان کی سربراہی میں ایک ٹیم کے تیارکردہ شمسی (سولر) سیل نے توانائی کی افادیت کے دو نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔
 

اس طرح دھوپ سے بجلی کی وافر مقدار بنانے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب ماحول دوست طریقے سے عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) بھی کم کرنا ممکن ہوگا۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے یاسر صدیقی اس وقت جنوبی کوریا کی جامعہ سائنس و ٹیکنالوجی میں کوریا انسٹی ٹیوٹ آف انرجی ریسرچ (کے آئی ای آر) سے وابستہ ہیں۔

انہوں نے بطور مرکزی سائنسداں، ایک بالکل نئے سولر سیل کی ڈیزائننگ اور تیاری کا مرکزی کام کیا ہے جسے کاپر انڈیئم سلفو سیلینائیڈ (سی آئی ایس ایس ای) کا نام دیا گیا ہے۔

اس سولر سیل کو خاص محلول شامل کرکے مستحکم بنایا گیا ہے اور سیل کا پورا نام کچھ طویل ہے جسے  ’سلوشن پروسیسڈ کاپرانڈیئم سلفو سیلینائڈ (سی آئی ایس ایس ای) لوبینڈ گیپ کا نام دیا گیا ہے۔

اگرچہ اس نے اسی حالت میں بھی باکفایت بجلی کا ایک ریکارڈ بنایا ہے لیکن جب اس کے اوپر پروسکائٹ کی پتلی تہہ  سینڈوچ کی طرح لگائی گئی تو اس نے بھی ایک نیا ریکارڈ بنایا۔

یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی سیمی کنڈکٹر سے الیکٹران آزاد کرانے کے لیے جو توانائی درکار ہوتی ہے اسے بینڈ گیپ کہا جاتا ہے، یعنی کسی سیمی کنڈکٹر کا بینڈ گیپ جتنا کم ہوگا اس سے الیکٹران کا بہاؤ اتنا ہی زیادہ ہوگا اور اتنی ہی بجلی بنے گی۔

ہم سے 15 کروڑ کلومیٹر دور سورج زمین پر حرارت اور توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ زندگی کی رونق بھی اسی ستارے سے وابستہ ہے۔

پودے دھوپ سے خوراک اور آکسیجن بناتے ہیں اور زمین پر موسم بھی اسی سے بنتے ہیں۔ نظری طور پر مکمل دھوپ ایک مربع میٹر پر 1360 واٹ کے بقدر توانائی بناسکتی ہیں۔ لیکن شمسی سیل سے اس کی بڑی مقدارٹکرا کر لوٹ جاتی ہے،  گزرجاتی ہے یا پھر بجلی میں ڈھل جاتی ہے۔

یوں ہم سورج کی حرارت اور توانائی کی کچھ فیصد مقدار ہی بجلی میں بدل پاتے ہیں۔ اسے عام طور پر سولر سیل کی کفایت یا ایفیشنسی کہا جاتا ہے۔

دنیا میں درجنوں اقسام کے سولر سیل بنائے اور استعمال کئے جارہے ہیں ۔ پہلی، دوسری اور تیسری نسل کے سولر سیل میں بھی انہیں تقسیم اور بیان کیا جاتا ہے۔

ہر قسم کے شمسی سیل کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ روایتی سلیکون شمسی سیل کی افادیت 15 سے 20 فی صد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مرتکز شدہ شمسی پینل کی افادیت 41 فیصد تک جاپہنچتی ہے تاہم اس پر آئینوں سے سورج کی کرنوں کو ایک مقام پر پھینکنا ہوتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر یاسر کا تیار کردہ شمسی سیل سینڈوج یا ٹینڈم قسم سے وابستہ ہے اور اس میدان میں سب سے مؤثر ایجاد بھی ہے۔

انقلابی سیل کی تیاری میں تین سال کی محنت شامل ہے۔ ان میں صرف سی آئی ایس ایس سیل کی افادیت 14.4 فیصد ہے جبکہ اسے پروسکائٹ معدن کے ساتھ جوڑا گیا تو اس پروسکائٹ، سی آئی ایس ایس ای سیل نے 23.03 ایفی شنسی کو چھوا جو محلول عمل سے تیار perovskite/CISSe سولر سیل کا نیا ریکارڈ بھی ہے۔