باچا خان مرکز پشاور میں اے این پی کے زیر اہتمام ”اعتدال پسندی‘ انتہا پسندی اور خدائی خدمتگار تحریک‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک اور معاشرے میں انتہا پسندی کے اثرات اور اعتدال پسندی کی ضرورت پر اہم سیاسی قائدین اور صحافیوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے ماضی کی سیاسی اور سماجی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر زور دیا جن مقررین نے اس سیمینار سے خطاب کیا ان میں خواجہ محمد آصف‘ جاوید ہاشمی‘ ایمل ولی خان‘ حامد میر‘ سلیم صافی‘ خادم حسین اور دیگر شامل تھے اس موقع پر مقررین نے پاکستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کیلئے انتہا پسندی اور منفی رویوں کو زہر قاتل قرار دیکر کہا کہ تمام درپیش مسائل کا حل مکالمے‘ برداشت اور جمہوری رویوں میں پنہاں ہیں اسلئے لازمی ہے کہ پاکستان میں دہرائی گئی ماضی کی غلطیوں کو مزید دہرانے سے گریز کا راستہ اپنا کر مثبت رویوں کو اجتماعی طور پر فروغ دیا جائے مقررین کے مطابق خیبرپختونخوا کے سیاسی قائدین‘ کارکنوں اور عوام نے انسانی حقوق‘ جمہوریت اور امن کیلئے لازوال قربانیاں دی ہیں جن کا اعتراف کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو ذاتیات‘ تلخی اور کشیدگی میں منتقل کرنے کی بجائے مکالمے کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا جائے‘ مقررین کے مطابق پاکستان میں عوامی سطح پر پھیلائی گئی نفرت اور دوریوں کے منفی اثرات نے کئی نسلوں کے علاوہ اسکے جمہوری اور سماجی ڈھانچے کو بہت متاثر کیا ہے اور اب بھی بعض قوتیں اس کوشش میں ہے کہ منافرت‘ تلخی اور کشیدگی کو فروغ دیکر پاکستانی معاشرے کو تقسیم کیا جائے انہوں نے کہاکہ قومیتوں اور صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرنا اور سماجی انصاف کو یقینی بنانا ایک مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے اسلئے کوششیں ہونی چاہئے کہ سیاسی برداشت اور مکالمے کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کیا جائے اور ان قوتوں کے ہاتھ روکے جائیں جو کہ معاشرے میں طاقت کے بل بوتے پر اپنی بات منوانے چاہتے ہیں اس موقع پر کہاگیا کہ خیبرپختونخوا نے جس استقامت اور صبر سے کئی دہائیوں تک انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا کیا اور قربانیاں دی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے نے استحکام پاکستان اور علاقائی امن کے قیام میں اپنے روایتی کردار کو قائم رکھا ہے اور اس کردار کا اس خطے کے عوام کو صلہ ملنا چاہئے اس موقع پر ماضی کی تاریخی غلطیوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہمیں ماضی غلطیاں اور تلخیاں بھلا کر ایک نئے عزم کیساتھ جمہوری رویوں کے ذریعے ایک پرامن اور ترقی پسند معاشرے کی بنیاد رکھنی چاہئے تاکہ نئی نسل کو ایک محفوظ پاکستان اور معاشرہ دیا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی طبقے قومیت یا علاقے کی حق تلفی نہ ہو اگرچہ مذکورہ سیمینار میں ملک کی دوسری اہم پارٹیوں خصوصاً دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور طبقوں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا جسکے باعث ان موضوعات پر ان کا نکتہ نظر سامنے نہیں آیا اور تشنگی قائم رہی تاہم خوش آئند بات یہ تھی کہ مقررین نے روایتی الزام تراشی یا سخت کلامی کی بجائے دلائل کی بنیاد پر اپنی تجاویز پیش کیں اگر دوسرے نظریات کی متعلقہ پارٹیوں کو اس بحث کا حصہ بنایا جاتا تو اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے اور جاری کشیدگی کے تناظر میں قوم اور سیاسی قائدین کو ایک مثبت پیغام پہنچ جاتا اسکے باوجود یہ بات خوش آئند رہی کہ روایتی جذبات کی بجائے ملکی تاریخ اور ہمارے مستقبل کے امکانات کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیاگیا ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی قائدین‘ دانشور‘ علماء نے اساتذہ اور میڈیا کے اہم لوگ جاری کشیدگی اور سماجی ڈپریشن کے خاتمے کیلئے مختلف فورمز پر دلیل اور مکالمے کا راستہ اپنا کر اصلاح کے امکانات کو فروغ دیں کیونکہ شدت پسندی‘ بدکلامی‘ الزام تراشی کا جو رجحان ہمارے ہاں فروغ پا رہا ہے اس نے معاشرے کو زنگ آلود بنا کر رکھ دیا ہے اور اب انتہا پسندی یا شدت پسندی کسی ایک طبقے یا گروہ تک محدود نہیں رہی ہیں۔