الینوائے: دنیا بھر میں آلودہ پانی کی شناخت کرنے والے بہت سے فلٹرموجود ہیں لیکن اب اصل ڈی این اے کی بنیاد پر ایک بہت دلچسپ واٹرسینسربنایا گیا ہے لیکن وہ آلودگی کا اظہار کمپیوٹر کی زبان میں کرتا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق الینوائے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے جولیئس لکس نے ڈی این سے حیاتیاتی کمپیوٹر کے تحت کام کرنے والا سینسر بنایا ہے جو بہت کم خرچ اور سادہ ہے۔
ایک جانب تو یہ آبی آلودگی ظاہر کرنے والا سادہ سینسر ہے تو دوسری جانب اس سے حیاتیاتی کمپیوٹر سازی میں بھی پیشرفت ہوگی۔
پانی کے صرف ایک قطرے سے یہ آلودگی شناخت کرسکتا ہے۔ اس میں ایک تبدیل شدہ پروٹین کا ڈی این اے ملایا گیا ہے جو آلودہ کیمیا اجزا کی موجودگی میں روشنی کے سالمات خارج کرتا ہے۔ اس طرح صرف دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پانی کا نمونہ کس قدر گندا ہے۔
پہلے فلٹر میں زندہ بیکٹیریا شامل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ لیکن اس کی انجینیئرنگ سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ بیکٹیریا کو سرگرم رکھنا بہت مشکل تھا۔ اس کے بعد مصنوعی (سنتھے ٹِک)حیاتیات پرغورکیا گیا۔
اب یہ جدید ترین سینسر کمپیوٹر تبدیل شدہ ڈی این اے کی بدولت شاندار نتائج فراہم کرتا ہے اور پانی میں موجود خطرناک کیمیائی اجزا کو محسوس کرسکتا ہے۔ اسے روزالِنڈ ٹو کا نام دیا گیا ہے جس میں 8 چھوٹی ٹیسٹ ٹیوب نصب ہیں اور ہر ایک میں مختلف شدت کی آلودگیاں ناپنے والے مختلف سینسر لگے ہیں۔
اب اگر ایک ٹیوب روشنی دے تو وہ بتاتی ہے کہ اس میں ایک آلودگی ہے۔ اگر زیادہ ٹیوب روشنیاں خارج کریں تو وہ بتاتی ہیں کہ پانی قدرے آلودہ ہے۔تبدیل شدہ ڈی این اے کے ریشے ہر آلودہ شے سے چپک کر روشنی خارج کرتے ہیں۔ اس طرح ہر ٹیوب آلودگی کی شدت کو بتاتی جاتی ہے۔
اس طرح ٹیوب میں روشنی دیکھ کر آلودگی کی شدت کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔جب اسے آزمایا گیا تو ڈی این اے سینسر نے کامیابی سے پانی میں جست، اینٹی بایوٹکس اور صنعتی فضلے سے خارج ہونے والے کئی کیمیکل کامیابی سے شناخت کئے۔ اس سینسر کا محلول منجمند کرکے ایک سے دوسری جگہ بھیجا جاسکتا ہے۔ اب چند قطرے پانی ڈال کر اسے تیارکیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر جولیئس کے مطابق یہ سینسر بطورِ خاص پینے کے پانی کی آزمائش کے لیے بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ نہایت کم خرچ اور استعمال میں آسان ہے۔