طلباء کی آواز، صدا بہ صحرا

یونیورسٹی کیمپس میں پروگریسو یوتھ الائنس کے نام سے طلبہ کا ایک نیا پلیٹ فارم حال ہی میں نمودار ہواہے جنہیں آپ دوسرے لفظوں میں ”اتحاد نوجوانان ترقی پسند“ بھی کہہ سکتے ہیں۔قریبی حلقوں اور باخبر ذرائع کے مطابق ان طلبا ء کا تعلق جو کہ اس وقت تعداد میں کچھ زیادہ نہیں ہیں، یونیورسٹی کی سوشل سائنس فیکلٹی سے ہے جبکہ ان کے آرگنائزرز کو شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے جوڑا جاتا ہے۔ الائنس یا اتحاد میں شامل درجن بھر طلبہ نے ایک ایسے دن اکیڈمک بلاک سے لاء کالج وائس چانسلر چوک تک ریلی نکالی اور ٹیچر کمیونٹی سنٹر کے باہر کھڑے ہوکر تقاریر کیں کہ اندر سنٹر کے ہال میں ملک بھر کی جامعات میں تدریسی اور غیر تدریسی خدمات انجام دینے والی خواتین کی خدمات اور حالت کار کے بارے میں سیمینار ہورہا تھا اور وہاں پر تشریف فرما اساتذہ نے 14فروری مغربی ویلنٹائن ڈے پر شیخ تیمور اکیڈمک بلاک میں ہونیوالے فیشن شو اور اس میں بقول عینی شاہدین ہلڑ بازی، بدتمیزی اور بے راہ روی کی انتہا کے خلاف اپنی ایسوسی ایشین کی کال پر بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر تین روزہ علامتی احتجاج کر رہے تھے، مگر یہ بات بھی قابل ذکر ہے جس طرح اس سے قبل اساتذہ کے ہونیوالے احتجاجوں میں یونیورسٹی کے اساتذہ سو فیصد شامل نہیں ہوئے ہیں، فیشن شو کیخلاف ہونیوالے تین روزہ علامتی یعنی محض سیاہ پٹیاں باندھنے کی حد تک احتجاج میں بھی یونیورسٹی کے تمام تر بالخصوص وہ اساتذہ جن کے انتظامیہ سے قریبی مراسم ہیں اور ٹیچنگ کیڈر کے ہوتے ہوئے انتظامی یا ایڈمنسٹریٹو پوسٹوں پر رضا کارانہ یا با معاوضہ کام کر رہے ہیں، سیاہ پٹیاں باندھنے کی علامت کے اظہار سے کنارہ کش رہے۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ شو یا پروگرام کے بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے میڈیا میں وضاحت بلکہ تردید آئی کہ اکیڈمک بلاک میں کوئی شو نہیں ہوا ہے حالانکہ جو کچھ ہوا وہ تو سر تا پا سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا رہا۔بہر کیف یہ توویسے ایک جڑا ہوا تذکرہ تھا، اصل بات تو ترقی پسند نوجوانوں یعنی طلبہ کے اتحاد، احتجاج اور مطالبات کی ہے جس میں وہ بالکل حق بہ جانب ہیں مگر عمل درآمد کا کیا بنے گا؟ ان کے یہ مطالبات کہ پشاور یونیورسٹی کیمپس میں اسلحہ کلچر‘ہراسانی، طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے اور یونیورسٹی کی ہر باڈی اور انسداد ہراسمنٹ کمیٹیوں میں طلباء کو نمائندگی دی جائے، فیسوں میں ہونیوالا اضافہ واپس لیکر مفت تعلیم کی فراہمی، طلباء یونین کی بحالی اور طلبا کو رہائش اور معیاری خوراک کی فراہمی سمیت ہم نصابی سرگرمیوں کے اہتمام کے اقدامات کئے جائیں، ترقی پسند طلبہ یا نوجوانوں کی یہ باتیں سن کر مجھے آج سے تقریباً تین چار عشرے قبل تک زندہ رہنے والی پروگریسیو سٹوڈنٹس یونین کی سرگرمیاں یاد آئیں، ان میں اساتذہ بھی شامل تھے جو کہ تیس برس بعد بھی یونیورسٹی میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے مگر اب اگر ہوں گے بھی تو آٹے میں نمک کے برابر۔ پروگریسیو سٹوڈنٹس الائنس نے اپنی پہلی احتجاجی ریلی میں جو مطالبات صاحب اقتدار و اختیار کے سامنے رکھ لئے ہیں ان پر عمل درآمد کیلئے سب سے اولین چیز پیسہ ہے اور پیسہ باقیماندہ ہر چیز ہر کام کیلئے ہے۔ اگر اپنی جیب اپنے ہاتھ میں نہ ہو تو قرض ادھار اور سود پر سہی کہیں نہ کہیں سے آئے گا۔مگر جہان تک تعلیم کا تعلق ہے تویہ بیچاری تو کسی بھی ترجیح کے قریب سے بھی نہیں گزری، پروگریسیو طلباء بہتر سمجھتے ہیں کہ محض دو فیصد بجٹ سے ملک کی تعلیم کا نظام چل سکتاہے؟ یعنی بالکل بھی نہیں۔ تو پھر مفت تعلیم، سہولیات اور طلباء کیلئے ہم نصابی سرگرمیوں کے اہتمام کا مطالبہ کہاں جاکر ٹھہرے گا؟ مارچ2020ء سے ہماری تعلیم اور تعلیمی ادارے جس ناگفتہ بہہ اور سخت ترین حالت سے دو چار چلے آرہے ہیں ترقی پسند طلباء سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہوگی کہ حکومت وقت نے تعلیم کو بچانے اور تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو چلانے کیلئے اپنے اخراجات میں کتنی کٹوتی اور غیر ترقیاتی پروٹوکولی اخراجات پر کتنا کٹ لگا کر تعلیم کیلئے گرانٹ نکالی ہے؟ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامیہ کالج کے ملازمین گزشتہ ایک مہینے سے محض اسی بناء پر احتجاج کررہے ہیں کہ وفاقی بجٹ میں آج سے آٹھ مہینے قبل تنخواہوں میں 10فی صد اضافے کا جو اعلان ہوا تھا یہ بیچارے اب بھی اس سے محروم ہیں کیونکہ بقول انتظامیہ کوئی گرانٹ نہیں ملی بلکہ حکومت بار بار زور دے رہی ہے کہ اپنے وسائل سے اس کا انتظام کرلیں۔ جہاں تک اپنے وسائل کی بات ہے تو وہ ہیں کہاں؟ کیا محض فیسوں‘ ہاسٹل چارجز اور امتحانات کے واجبات سے یونیورسٹی چل سکتی ہے؟ یقیناً نہیں چل سکتی تو پھر 10فیصد اضافی تنخواہ اور پنشن اور ساتھ ہی الاؤنسز کی ادائیگی کاکیا بنے گا؟ ترقی پسند طلباء یاد رکھیں کہ موجودہ دور میں ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں رہا جو کسمپرسیx کا شکار نہ ہو تو پھر تعلیم کیسے ترقی کر پائے گی؟ مانا کہ تعلیم سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی چیز ہے مگر ضروری نہیں کہ حکومتوں کی ترجیحات میں بھی شامل ہو کیونکہ حصول اقتدار اور طول اقتدار کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔