روس عالمی اقتصادی پابندیاں اُور اثرات 

یوکرین پر حملے کے بعد روس کے تجارتی شراکت دار یورپی یونین اور برطانیہ نے ماسکو پر پابندیاں عائد کی ہیں تاہم اِس سلسلے عالمی طاقت چین نے مختلف حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اُور کیا وہ روس کی معاشی مدد کر سکتا ہے اُور کیا روس پر عالمی پابندیاں اِس کی تجارت کو متاثر کریں گی؟ چین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھے گا لیکن چند روسی بینکوں کی عالمی بینکاری نظام سوئفٹ‘ جس کے تحت عالمی طور پر ادائیگیاں ممکن ہوتی ہیں‘ سے بے دخلی کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپنی برآمدات کے لئے ادائیگیاں کرنا اب ماسکو کے لئے اتنا آسان نہیں رہے گا۔ 
گزشتہ ماہ روس کے صدر پیوٹن نے چین کا دورہ کیا تو دونوں ملکوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ دوہزارچوبیس تک باہمی تجارت کو ڈھائی سو ارب ڈالر تک بڑھا دیا جائے گا واضح رہے کہ چین روس کی توانائی برآمدات جیسا کہ تیل و گیس‘ کوئلہ اور زرعی اجناس کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ موجودہ بحران نے یورپ کی اس سوچ کو مزید تقویت دی ہے کہ اس کو اپنی ضروریات کے لئے دیگر ذرائع پر بھی غور کرنا ہو گا۔ دوسری طرف یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان باہمی تجارت کا حجم کافی کم ہے جبکہ روسی معیشت کا دارومدار کافی حد تک تیل و گیس کی برآمدات پر ہوتا ہے جو اب تک مغربی معاشی پابندیوں کا نشانہ نہیں بنیں۔ 
میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال روس چین کو تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا اور گیس فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک تھا جس کی درآمدات کا تخمینہ اکتالیس اعشاریہ ایک اور چار اعشاریہ تین ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ روس کے صدر پیوٹن نے حال ہی میں چین کے ساتھ ہونے والے نئے تیل اور گیس معاہدوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے جن کی مالیت تقریباً ایک سو سترہ ارب ڈالر بنتی ہے۔ روس سے پیدا ہونے والی توانائی کی سب سے زیادہ کھپت اب بھی یورپ میں ہی ہوتی ہے جس کی چالیس فیصد گیس اور چھبیس فیصد تیل کی ضرورت ماسکو پوری کرتا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے جاری کردہ کے اعداد و شمار برائے سال دوہزاراکیس کے مطابق دوسری جانب روس کی تیل کی برآمدات کا صرف بیس فیصد حصہ چین کو جاتا ہے جبکہ بڑا حصہ یورپ استعمال کرتا ہے۔
 ماہرین کے مطابق روس کی چین کو تیل اور گیس کی برآمدات میں گذشتہ پانچ سال سے مسلسل سالانہ بنیاد پر نو فیصد کا اضافہ ہوا رہا ہے۔ یہ یقیناً بڑا اضافہ ہے لیکن روس کے تیل کی کھپت اب بھی چین کی نسبت یورپ میں زیادہ ہے۔ روس کی قدرتی گیس لینے والا جرمنی حال ہی میں اعلان کر چکا ہے کہ یوکرین پر حملے کے ردعمل میں گیس کی نئی پائپ لائن کا منصوبہ معطل کر دیا جائے گا جسے نورڈ سٹریم ٹو کا نام دیا گیا تھا۔ روس اور چین کے درمیان ہونے والے نئے معاہدے کے تحت پاور آف سائبیریا ٹو نامی گیس پائل لائن بنائی جائے گی لیکن اس کی استعداد نورڈ ٹو سٹریم پائپ لائن کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم ہو گی۔ اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ سائبیریا سے گزرنے والی اس پائپ لائن کا آغاز کب ہو گا۔ 
چین روس سے کوئلہ خریدنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہفتہ قبل ہی بیس ارب ڈالر کا نیا معاہدہ ہوا ہے۔ جلد یا بدیر چین ضرور یہ چاہے گا کہ کوئلے پر بھاری انحصار ختم کرنے اور ماحول دشمن گرین ہاؤسیز گیسز کم کرنے کے لئے چین روس سے گیس کی درآمدات میں اضافہ کرے۔ روس دنیا بھر کو گندم فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن چین نے بیماریوں کے خداشت کے پیش نظر روس کے چند مخصوص علاقوں سے درآمد محدود کر رکھی تھی لیکن جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا‘ اسی دن چین کے کسٹم حکام نے اعلان کیا کہ روس کی گندم اور مکئی کی درآمد پر عائد تمام پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد روس اُور چین کی قربت میں اضافہ ہوا ہے اُور اِس سے نہ صرف اِن دو ممالک بلکہ خطے کے دیگر ممالک بشمول پاکستان بھی تجارتی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عفت حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)