انعام یا طعنہ؟ بقول جیک

جامعہ پشاور کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین ایک ایسے وقت میں کام کاج کو ایک دن کیلئے خیرباد کہتے ہوئے ٹیچرز کمیونٹی سنٹر کے گیٹ پر لاء کالج چوک سے شعبہ امتحانات تک سڑک پر دھرنا دیکر بیٹھ گئے کہ اسلامیہ کالج کے اساتذہ اورنان ٹیچنگ سٹاف تقریباً ایک مہینے کے احتجاج کے بعد تھکے ماندے یوم تشکر منا رہے تھے پشاور یونیورسٹی کے ملازمین نے بھی اسلامیہ کالج کے طرز پر اتحاد کرکے جائنٹ ایکشن کونسل تشکیل دی ہے یار لوگوں کا کہنا ہے کہ جمعہ 4مارچ کا احتجاج علامتی تھا جبکہ پیر 7مارچ سے ٹیچرز کمیونٹی سنٹر کے گیٹ پر لگایا جانے والا علامتی دھرنا احتجاجی کیمپ دوسرا قدم ہوگا۔ البتہ اس کے بعد بھی اگر یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی نہیں کی تو تیسرا قدم یونیورسٹی کی مکمل بندش کی شکل میں نمودار ہوگا۔ گرما گرمی کے اس ماحول میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر طارق بنوری کا دورہ اور پیوٹا کی دعوت پر اساتذہ اور طلباء سے خطاب جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اعلیٰ تعلیم پیشہ ورانہ تربیت قومی ورثہ اور ثقافت کی ذیلی کمیٹی کا دورہ اور پشاور یونیورسٹی کی میزبانی میں صوبہ بھر کے وائس چانسلروں کو بلا کر خیبر پختونخوا کی جامعات کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا بھی کچھ ایسی سرگرمیاں ہیں جو کہ نظر انداز نہیں کی جا سکتیں ایسے میں ایک قابل ذکر واقعہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے یونیورسٹی کیمپس کی چاروں سرکاری یونیورسٹیوں کیلئے گرانٹ کا اعلان کیا گیا یا فراہم کردی ہے جس میں جامعہ پشاور کے انتظامی سربراہ کے بقول حکومتی مالی امداد میں قدرے زیادہ یعنی 50کروڑ روپے پشاور یونیورسٹی کو دیئے گئے ہیں جس میں 5کروڑ روپے انعام بھی شامل ہے۔
 بقول وائس چانسلر یہ انعام پشاور یونیورسٹی کی بہترین کارکردگی کا اعتراف ہے مگر انتظامیہ کی اپوزیشن یعنی پیوٹا کی قیادت بشمول فرینڈز گروپ اور جیک اسے انعام نہیں بلکہ ملازم دشمنی اور ایکٹ سے انحراف کا صلہ قرار دے رہے ہیں جبکہ یونیورسٹی کی نان ٹیچنگ اکثریت بھی اس کی تائید کرتی ہے یونیورسٹی اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کے احتجاج کے پہلے راؤنڈ میں حسب سابق بعض اساتذہ نے اس کے باوجود کنارہ کشی اختیار کی کہ یونیورسٹی میں آنیوالے طلباء کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسے اساتذہ کو انتظامیہ کی طرف سے شاباش بھی ملی اور ملازمین کے احتجاج پر اپنے رد عمل میں انتظامی سربراہ نے اپنی میڈیا ٹاک میں خراج تحسین بھی پیش کیا ملازمین احتجاج کے سٹیج پر جن نمائندوں نے انتظامیہ کو للکارا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پانچ کروڑ کا انعام یونیورسٹی ملازمین کے نزدیک وائس چانسلر کیلئے ایک طعنہ ہے جنہوں نے ایک ایسے دور میں یونیورسٹی ملازمین کو حاصل قانونی مراعات یا بہ الفاظ دیگر الاؤنسز میں کٹوتی کرکے ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے کہ ملک کے غریب طبقے میں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آرہے ہیں جبکہ نہ رکنے والی مہنگائی نے ہر غریب کو نیم پاگل بنا دیا ہے ان کا احتجاج تھا کہ رہائش تعلیم اور علاج ان کی ملازمت سے جڑے قانونی حقوق ہیں مگر اس کے باوجود موجودہ انتظامی سربراہ نے حکومتی تعلیم دشمنی کی پیروی کرتے ہوئے اس میں اضافے کی بجائے کٹوتی کردی جبکہ یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملازمین کے پڑھنے والے بچوں سے فیسوں کی وصولی بھی مقرر کردی گئی۔
 دوسری جانب وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ چونکہ آئین کے تحت یونیورسٹیاں اب صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں لہٰذا صوبائی حکومت کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا بہر کیف ملازمین احتجاج کی تو ابھی ابتداء ہی ہوگئی ہے ممکن ہے کہ رمضان شروع ہونے تک بہت کچھ نمودار ہو جائے البتہ انتظامی سربراہ کے اس مؤقف پر کہ یونیورسٹی سال 2011ء سے مسلسل ایک بلین سے زائد بجٹ خسارے کا شکار تھی جس میں 769ملین روپے بینکوں کا قرضہ بھی شامل تھا اور حالت اس قدر ابتر ہوچکی تھی کہ یونیورسٹی اپنے ملازمین کو محض بیسک پے کی ادائیگی کی پوزیشن پر آگئی تھی جبکہ اس وقت حالت یکسر تبدیل ہوچکی ہے یونیورسٹی نے نہ صرف مالیاتی اداروں کا قرضہ ادا کردیا ہے بلکہ تنخواہوں اور الاؤنسز کی ادائیگی میں حائل مشکلات بھی ختم ہوچکی ہیں یونیورسٹی ملازمین کا رد عمل یا جواب دعویٰ یہ ہے کہ انتظامی سربراہ حکومتی ایماء پر پانچ سو سے زائد ایڈہاک ملازمین کو فارغ کرنے اور مستقل ملازمین کے الاؤنسز میں کٹوتی اور بچوں کی فیسوں سمیت مختلف نئے چارجز لاگو کرنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔