10 بمقابلہ100‘حاصلئ اضطراب

احتجاج کرنے والے یونیورسٹی ملازمین میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے بھی شامل ہیں یا نہیں؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ درجہ سوئم اور درجہ چہارم ملازمین میں سے بعض کا قدرے زیادہ شورشرابہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ لوگ مہنگائی کے بوجھ تلے قدرے زیادہ دبے ہوئے ہیں ان کیلئے سالانہ بجٹ میں 10 فیصد اضافے کا جو اعلان ہوا تھا وہ تو خوش قسمتی سے انہیں بقایا جات سمیت مل گیا اور ممکن ہے کہ صوبائی حکومت کے اعلان کردہ الاؤنسز بھی جلد یا بہ دیر ان کے ہاتھ لگ جائیں مگر پھر بھی اطمینان کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ یار لوگوں کا شکوہ ہے کہ وہ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے سے مہنگائی میں 100 فیصد اضافے کا مقابلہ کس طرح کریں گے؟بات تو نہایت معقول ہے مگر کیا کریں کہ سننے والے دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں البتہ غرباء و مساکین کے زخموں پر یہ نمک پاش مسلسل ہو رہی ہے کہ پاکستان سب سے سستا بلکہ سستا ترین ملک ہے

یہ تو اس شخص سے پوچھنا چاہئے جس کا اپنا گھر ہے اور نہ ہی مستقل روزگار چار پانچ بچوں کے باپ ہیں خود بھی بیمار اور لاغر ہیں جبکہ گھر میں والدین بھی دائمی مریض پڑے ہوئے ہیں بہر کیف اب تو صورتحال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ اساتذہ اور کلاس تھری اور کلاس فور جیسے سٹیک ہولڈرز ڈیوٹی چھوڑ کر سڑک پر بیٹھے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں تو پھر بنیادی سٹیک ہولڈر یعنی طلباء والدین اور عوام کہاں کھڑے ہوں گے؟ ایسے میں جامعات کو صوبائی حکومت کی گرانٹ کا ملنا اگرچہ ایک باعث اطمینان امر تصور کیا جا سکتا ہے تاہم یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ اساتذہ اورغیر تدریسی معاون سٹاف اس میں سے اپنا اپنا حصہ لیکر کس حد تک مطمئن ہوں گے؟ ایک ایسی فضا میں جبکہ ملازمین دوسری یونیورسٹیوں کے ملازمین اور صوبائی تنظیموں کی یکجہتی کے ساتھ میدان میں اترکر یونیورسٹی بندش پر تلے ہوئے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ اپنی ویب سائٹ کے پیج پر عوام کو اطمینان دے رہی ہے کہ سب کچھ کھلا رہے گا تو ایسے میں جو حقیقت ہو گی

وہ سب کے سامنے ہو گی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وبائی صورتحال میں تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوئی تعلیمی بندش میں اگر ایک جانب جامعات کے ذرائع آمدن مفلوج ہونے سے مالی مشکلات بڑھ گئیں تو ساتھ ہی طلباء کا بھی نا قابل تلافی تعلیمی ضیاع ہوا بیروزگاری اور مہنگائی تو ایسے بڑھی کر بڑھتی چلی گئی اس لئے تو احتجاج کرنے والے ملازمین کہتے ہیں کہ جب کورونا کے سبب مالی بحران کا سارا نزلہ غریبوں پر آ گرا تو ایسے میں ان کی آمدن یعنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی بجائے کٹوتیوں کا کیا جواز ہے؟ یہ بات اپنی جگہ کہ الاؤنسز میں کٹوتی محض اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کیلئے نہیں بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کے سٹاف سے بھی کی گئی ہیں مگر کلاس تھری اور کلاس فور کا موقف اور احتجاج یہ ہے کہ یہ دیکھنا لازمی ہوگا کہ ہزاروں میں تنخواہ کون لے رہا ہے اور لاکھوں میں کون؟

اس جاری احتجاج میں ریٹائرڈ ملازمین نے بھی اپنی آواز شامل کر دی کیونکہ یہ لوگ بجٹ میں اعلان شدہ10 فیصد اضافے سے آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود تاحال محروم ہیں تاہم بقول وائس چانسلر کوئی بقایا نہیں احتجاج کرنے والوں میں ایک تیسرا فریق بھی ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ وہ حاضر سروس ہونے کے باوجود بھی اساتذہ اور تان ٹیچنگ سٹاف جبکہ پینشنرز کی طرح کھلے بندوں احتجاج کی بجائے سب کچھ خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں اور وہ فریق ہے یونیورسٹی کے ڈینز صاحبان جنہیں حساب کتاب کرنے والے سرکاری اداروں نے ایڈمنسٹریٹیو کیڈر میں ڈالا اور ان کی تنخواہوں سے خوب جی بھر کر کٹوتیاں کی جا رہی ہیں یہ معاملہ متعلقہ سرکاری حکام اور غالباً عدالتوں تک بھی جا پہنچا مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا

یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ موجودہ ابتر مالی صورتحال میں یونیورسٹی کو مالی خسارے سے نکالنے جیسے بڑے مقصد کے پیش نظر قدرے قربانی دینی ہو گی مگر احتجاجی ملازمین کا جواب ہے کہ حکومت پہلے دوسرے سرکاری اداروں کے ملازمین کی طرح ہماری تنخواہوں اور الاؤنسز میں مہنگائی کے تناسب سے معقول اضافہ کر دے تب جا کر کٹوتیوں کی باری آئے گی‘ بصورت دیگر کوئی چارہ نہیں ہو گا چاہئے طلباء کا کتنا ہی تعلیمی ضیاع کیوں نہ ہو۔