اس وقت چین اور روس نے کئی محاذوں پر امریکہ کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈالی ہوئی ہیں اور ایک طرف اگر یوکرین میں روس نے اپنی طاقت کے ذریعے یورپ کے نقشے کو بدلنے کی ابتدا کر لی ہے تو دوسری طرف چین نے بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے، یورپ اور امریکہ نے لاکھ کوشش کی کہ چین روس کے حملے کی مذمت کرے تاہم چین نے اسے ایک سپیشل آپریشن کا نام دیا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ روس کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کر دیاگیا ہے
اور لگتا یہ ہے کہ روس پر امریکہ اور یورپی ممالک کی پابندیاں بھی غیر موثر ثابت ہوں گی کیونکہ چین اس میں ساتھ نہیں دے رہا جو روس کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور اب مغربی پابندیوں کے بعد روس اپنے دوست ملک چین کے ساتھ مل کر غیرملکی ادائیگیوں کا ایک نیا نظام متعارف کروانے والا ہے۔ دوسری جانب بیلا روس نے ملکی سٹاک ایکسچینج کی تجارت چینی کرنسی یوآن میں کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ روس اور چین اپنے متعلقہ مالیاتی اداروں کے درمیان پیغام رسانی کا ایک نیا نظام قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنا کئی حوالوں سے اہم ہے۔جس طرح چین اور روس نے امریکہ سے ہٹ کر اپنا جی پی ایس سسٹم بنا لیا ہے
اس طرح وہ اب مالیاتی ٹرانزکشن کا اپنا نظام بھی سامنے لا رہے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ روس یوکرین جنگ کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ یوکرین میں امریکہ نے روس کے خلاف اڈہ بنانے کی جو کوشش کی تھی اسے روس نے ناکام بنا دیا ہے اور روس کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کی جارہی تھی جس کا نشانہ رو س ہو سکتا تھا اور روسی فوجیوں نے یوکرین میں کئی کیمیائی ہتھیاروں کی لیبارٹریاں تباہ کی ہیں۔ اس حوالے سے روس نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے۔ جہاں تک روس کے دعوے کا تعلق ہے تو امریکہ سے کچھ بھی بعید نہیں۔ حقیقت جو بھی ہے لگتا یہ ہے کہ امریکہ نے نہایت چالاکی سے رو س کو جنگ میں دھکیل دیا ہے جس کی معیشت بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کررہی تھی اور وہ چین کے ساتھ مل کر عالمی معیشت میں ایک اہم کردار کے طور پر سامنے آنے لگا تھا۔
اب یہ جو تازہ ترین پیش رفت سامنے آئی ہے کہ روس اور چین نے مشترکہ مالیاتی نظام تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایک اور درد سر ہے۔واضح رہے کہ مغربی ممالک نے یوکرین پر حملے کے بعد پابندیاں عائد کرتے ہوئے متعدد بڑے روسی بینکوں کو عالمی ادائیگیوں کے نیٹ ورک سوِفٹ سے الگ کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس ڈالر اور یورو کا استعمال کرتے ہوئے نہ تو ملک سے باہر پیسہ بھیج سکتا تھا اور نہ ہی ملک میں لا سکتا تھا۔اب روسی مرکزی بینک کی طرف سے تیار کردہ مالیاتی پیغام رسانی کا ایک نیا نظام (ایس پی ایف ایس)متعارف کروایا جا رہا ہے، جس سے مقامی انٹربینک ٹریفک کے بہاؤکو جاری رکھا جائے گا۔ اس طرح ویزا اور ماسٹر کارڈ کی سروس معطل ہونے کے بعد بعض روسی بینکوں نے چین کے یونین پے
سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے نئے کارڈز جاری کرنا شروع کر دئیے ہیں۔تاہم روس کے پاس ایک دوسرا راستہ بھی ہے کہ وہ اپنے بیرونی لین دین کو چین کے سی آئی پی ایس پیمنٹ پلیٹ فارم سے منسلک کر دے۔ قبل ازیں ڈالر اور یورو تک رسائی نہ ہونے کے بعد روسی وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ وہ اب یوآن میں موجود اپنے غیرملکی ذخائر کا استعمال کرے گی۔ دریں اثنا ویزا اور ماسٹر کارڈ کی سروس معطل ہونے کے بعد بعض روسی بینکوں نے چین کے یونین پے سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے نئے کارڈز جاری کرنا شروع کر دئیے ہیں دریں اثنا ماسکو حکومت کے اتحادی ملک بیلا روس نے بھی 18 مارچ سے ملکی سٹاک ا یکسچینج کی تجارت چینی کرنسی یوآن میں کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بات کا اعلان بیلاروس کے مرکزی بینک کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یعنی روس اور یوکرین جنگ میں چین نے نہ صرف رو س کا ساتھ دیا ہے بلکہ ایک نئے عالمی مالیاتی ڈھانچے کے ساتھ میدان میں آیا ہے جس کے آنے والے دنوں میں دور رس اثرات سامنے آئیں گے۔