موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات اگر چہ ماضی کے مقابلے میں کافی موثر ہیں تاہم پھر بھی اس ضمن میں مزید تیزی کی ضرورت ہے۔ جون 1992 میں ریو میں منعقدہ ارتھ سمٹ میں، پاکستان نے G77 اور چین کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے ان مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے اپنے آپ کو منوایا جس کے نتیجے میں یو این فیم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC) کو اپنایا گیا۔ حکومت نے 1984 میں موسمیاتی کنونشن کی توثیق کی لیکن اس کے بعد فالو اپ کے طور پر کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آرہے۔عالمی موسمیاتی گفتگو میں پاکستان کا کردار غیر معمولی رہا ہے تمام ممالک ایسے اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں معاون ہوں، جیسے کہ گرین ہاؤس کے اخراج کو کم کرنا اور اپنی معیشتوں کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے ہم آہنگ کرنا۔ موسمیاتی اقدامات کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے معتبر جائزوں کے ذریعے تشکیل دیا جانا چاہیے اور نتائج پر مبنی اہداف پر مشتمل ہونا چاہئے۔اکتوبر 2008 میں پلاننگ کمیشن کی طرف سے موسمیاتی تبدیلی پر ٹاسک فورس کا قیام پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جامع انداز میں جائزہ لینے اور جوابات تجویز کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش کی نمائندگی کرتا ہے۔ ٹاسک فورس نے2009میں متعدد کثیر الشعبہ ورکنگ گروپس کے اقدامات پر مبنی اپنی رپورٹ پیش کی۔این سی سی پی کو اپنانے کے دس سال بعد، اس کی 100 سے زیادہ پالیسی سفارشات میں سے زیادہ تر غیر لاگو ہیں۔ حال ہی میں، حکومت نے پالیسی کا ایک نظرثانی شدہ ورژن جاری کیا جس میں یہ بتایا گیا کہ یہ 2015 میں اپنائے گئے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کی عکاسی کرتی ہے۔
ہماری آب و ہوا کی پالیسی میں اب بھی کئی کمزوریاں موجود ہیں جن کو دور کرکے اس سنجیدہ مسئلے کو صحیح معنوں میں ایڈریس کیا جاسکتا ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی تو وجود میں لائی گئی تاہم صوبوں پر جو اس ضمن میں ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ہر لحاظ سے پورا کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔2017 میں، ہماری پارلیمنٹ نے موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کی طرف سے تجویز کردہ موسمیاتی تبدیلی بل کا مسودہ منظور کیا، جس میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کے لیے ایک مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ شامل تھا۔ یہ ایکٹ ایک قومی موسمیاتی تبدیلی کونسل (NCCC) کے لیے فراہم کرتا ہے، جس کی سربراہی وزیر اعظم کرتا ہے اور اسے قومی آب و ہوا سے متعلق پالیسیوں کی منظوری اور ان کی پیروی کو مربوط کرنے کا پابند بنایا گیا ہے‘ایک نیشنل کلائمیٹ چینج اتھارٹی (NCCA) تشکیل دی گئی جس کے وسیع مینڈیٹ میں کثیرالطرفہ گرین کلائمیٹ فنڈ اور دیگر ذرائع سے فنڈنگ کیلئے پیش کیے گئے ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔ اور آب و ہوا سے متعلق پروگراموں اور منصوبوں کیلئے فنڈز کو متحرک اور خرچ کرنے کے لیے ایک قومی موسمیاتی تبدیلی فنڈ بھی تشکیل دیا گیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک موثر ادارہ جاتی ڈھانچے کی عدم موجودگی نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کو غیر موثر بنایاہے۔ گرین کلائمیٹ فنڈ، ایڈاپٹیشن فنڈ، اور گلوبل انوائرمینٹل فیسیلٹی (GEF) کی طرف سے فنڈ کیے گئے تقریبا تمام 35 یا اس سے زیادہ پروجیکٹس UNDP یا اقوام متحدہ کی دیگر تنظیموں کی طرف سے تجویز کیے گئے تھے۔ دوست ممالک کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں کی کہانی بھی یہی ہے جیسے کہ 60 ملین یورو کا کلین انرجی پراجیکٹ جو جرمنی کی مالی اعانت فراہم کرتا ہے اور موسمیاتی لچک کو بڑھانے اور پانی کے حوالے سے منصوبوں کو برطانیہ کی حمایت حاصل ہے۔2018 میں، منصوبہ بندی کمیشن کے تعاون سے وزارت آبی وسائل نے صوبوں کی رضامندی سے پہلی جامع قومی آبی پالیسی مرتب کی۔ تقریبا ًچار سال بعد، ہمیں اس تاریخی بلیو پرنٹ پر کوئی پیروی کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ اسی طرح، 2020 میں ایک نئی قومی توانائی پالیسی اپنائی گئی، جس میں 2030 تک توانائی کے ذخیرے میں صاف توانائی کے حصہ کو 60 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ شمسی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار بڑھانے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز،تحریر: شفقت کاکاخیل، ترجمہ: ابوالحسن امام)