یونیورسٹیاں کس کے پاس ہیں؟

قوم پرستی کا دعویٰ کرنیوالی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں آئینی طورپر جامعات کو صوبوں کی جھولی میں ڈالنا اور اسکے بعد خیبرپختونخوا جامعات ترمیمی ایکٹ سال2016ء کے بعد یونیورسٹی ملازمین کی طرف سے جامعات کی خودمختاری کا راگ الاپنا ایک ایسا رویہ بلکہ طرز عمل ہے کہ جس پر تنقید یا نکتہ چینی اور افسوس کافی نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے‘ یہ کارنامہ موجودہ نہیں بلکہ گزشتہ مخلوط حکومت نے انجام دیا تھا مگر اس وقت یونیورسٹی ملازمین خاموش ر ہے بعدازاں جب1974ء کے ایکٹ کو طاق میں رکھنے اور نئے ایکٹ سازی کا مرحلہ شروع ہوا تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مشاورت اور ڈرافٹ سازی کے عمل میں انہی یونیورسٹیوں کے نہایت سینئر اساتذہ یعنی ڈین صاحبان اور افسران شامل رہے اوریہ حضرات اسکے باوجود خاموش رہے کہ یونیورسٹیوں کیساتھ کھلواڑ ہوتا رہا دراصل اس وقت صورتحال یہ تھی کہ جس قاعدے ضابطے میں یونیورسٹی ملازمین کا مفاد ہوتا اور وہ وفاقی حکومت کی طرف سے آتا تو یہ برملا بلکہ بہ بانگ دہل کہتے کہ ہم تو وفاق کیساتھ ہیں اور پھر جب اس طرح کا کوئی مفاد صوبے کے قانون میں نظر آتا تو یارلوگ صوبائی حکومت کے بھانجے بن جاتے نتیجتاً نہ ادھر کے رہے او رنہ ادھر کے بلکہ لٹک گئے اب حالت یہ ہے کہ صوبائی حکومت محض اس حد تک جامعات کو اپنے ادارے تسلیم کرتی ہے کہ اس میں مداخلت کرے اور  اپنی مرضی ٹھونس دے اور جب باری اسکے سنبھالنے کی آتی ہے تو کہتی ہے-

کہ یہ خود مختار ادارے ہیں اپنے انتظام و انصرام اور مالیاتی ضروریات کا انتظام ان کا اپنا کام ہے اپنے وسائل بڑھا دیں اور اپنی ضروریات خود پوری کرتے رہیں حکومت کا یہ رویہ‘ سلوک اور طرز عمل نارمل حالت تو کیا کورونا جیسی غیر معمولی صورتحال میں بھی برقرار رہا حکومت آن لائن کلاسز کی گردان تو کرتی رہی لیکن اس کیلئے دوسری ضروریات پوری کرنے تو کیا طلباء کو انٹرنیٹ پیکیج تک نہیں دیا گیا فیسیں وصولی ہوتی رہی اور طلباء کوورچول کلاسز کے نام پر ورغلانے کا سلسلہ دو سال جاری رہا اب جبکہ ملک بالخصوص صوبے کی سب سے پرانی اور بڑی یونیورسٹی میں ہو کا عالم ہے تالے لگے ہوئے اور ملازمین سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں تو بھی حکومت کہیں بھی کھڑی نظر نہیں آ رہی مانا کہ اقتدار کی جنگ اس صورتحال سے زیادہ ضروری ہے مگر اس کا کیا کہئے کہ اس دھرنا احتجاج کا اصل نشانہ بھی محض طلباء ہی ہیں ملازمین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ منطق چلنے کا نہیں کہ قانون ان کا لا گو ہوگا اور جب بات مراعات یا الاؤنسز اور ملازمین کی حیثیت اور قواعد و ضوابط کی آئے تو پھر کہا جائے کہ یہ تو اٹیچ ڈیپارٹمنٹ ہیں لہٰذا ان کا سنبھالنا یونیورسٹیوں کا اپنا کام ہے ایسے میں یونیورسٹی انتظامیہ ایک عجیب سی صورتحال بلکہ جنجال میں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہے ایک جانب حکومتی قواعد وضوابط کو حکومت کی مرضی کے مطابق یونیورسٹی ملازمین پر لاگو کرنے کی نہایت کٹھن کیفیت اور دوسری طرف سے ملازمین کے ہاتھوں یونیورسٹی بند اور ہائے جمالو کی سیریز جاری ہے ایسے میں انتظامیہ کیلئے ہاتھ اٹھا کر کرسی کو خیرباد کہنے کے سوا اگر کوئی دوسرا راستہ ہے تو وہ کونسا اور کہاں ہے؟

ہرچند کہ انتظامیہ نے حکومتی ایماء پر یا اسکے حکم کی تعمیل میں یونیورسٹی ملازمین کو پہلے سے حاصل الاؤنسز میں کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے یعنی کٹوتیاں ابھی باقی ہیں جسکے بارے میں انتظامیہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یکم جولائی2022 سے کی جائیں گی لیکن سراپا احتجاج ملازمین اس کے جواب میں وہ سانپ والا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک شخص کے سینے پرسوتے میں سانپ گزرا تھا اسے ڈسا نہیں تھا مگر وہ شخص پھر بھی زاروقطار رو رہا تھا کسی کے یہ کہنے پر کہ ارے بھئی سانپ تو صرف گزرا ہے آپ کو ڈسا تو نہیں تو پھر روتے کیوں ہو؟ اس شخص کا جواب تھا کہ بلاشبہ کہ سانپ نے ڈسا نہیں مگر اس کا یہ راستہ مجھے قطعاً پسند نہیں آیا ملازمین کہتے ہیں کہ کچھ دینے کی بجائے محض لینے بلکہ چھیننے کے درپے حکومت کے کہنے پر آج ہمارے میڈیکل الاؤنس ہاؤس ریکوزیشن وغیرہ میں کٹوتی کی گئی اور ساتھ فری تعلیم کا حق چھین کر ان کے بچوں پر فیس لاگو کردی گئی کل اگر حکومت کہے کہ ان کی تنخواہیں بہت زیادہ اور اوقات کار بہت کم قلیل ہیں لہٰذا پہلے والے میں کٹوتی کریں اور دوسرا بڑھا دیں تو پھر کیا ہوگا؟ درحقیقت یہ حالت اس غفلت کا نتیجہ ہے جب حکومت بغیر کسی تیاری اور منصوبہ بندی کے یونیورسٹیوں کو صوبوں کی جھولی میں ڈال رہی تھی اور ملازمین نے چپ سادھ لی تھی اگر اب کی طرح اس وقت”چوبیس چوبیس“ کے نعرے لگتے تو یہ صورتحال پیش نہ آتی۔