حکومت نے سال2021-22ء کے بجٹ میں اعلان کیا تھا کہ جامعات کے اساتذہ کو20فیصد‘ معاون سٹاف یعنی کلاس تھری کو3500 روپے اور کلاس فور کیلئے اس سے قدرے کم الاؤنسز فراہم کئے جائیں یہ مہربانی صوبائی حکومت کی تھی جس کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر خوب تشہیر کی گئی مگر کیا کریں کہ اعلان محض اعلان ہی رہا یعنی9مہینے گزرنے کے باوجود یونیورسٹیوں کو مجال ہے کہ کوئی پیسہ ٹکہ ملا ہو دسویں مہینے میں پھر اعلان آیا کہ حکومت نے یونیورسٹی کیمپس کی چاروں جامعات کیلئے گرانٹ جاری کردی ہیں جس میں پشاور یونیورسٹی کا حصہ بقدر حبثہ قدرے زیادہ ظاہر کیاگیا یعنی45 کروڑ جبکہ5کروڑ کا انعام ملا کر50 کروڑ بن گئے مگر یہ بھی تاحال محض اعلان ہی سمجھ لیں کیونکہ جامعات انتظامیہ کے بقول تاحال کوئی گرانٹ نہیں ملی اب اساتذہ تو خیربادشاہ لوگ ہیں انتظار کر سکتے ہیں مگر کلاس تھری اور کلاس فور بیچارے گرانٹ کی راہ تکتے رہ گئے ہیں ان لوگوں نے مسلسل16 دن یونیورسٹی کو بند کرکے خوب جی بھر کر شور شرابہ بھی کیا
مگر دھرنا نشستوں کے مائیک سے حکومت کی طرف سے تسلط کسمپرسی کیخلاف کوئی قابل ذکر زور دار آواز سننے میں نہیں آئی بلکہ یار لوگ اپنی بھڑاس محض وائس چانسلر‘رجسٹرار‘ ٹریژرر اور انتظامیہ کے معاونین اور حواریوں پر نکالتے رہے حالانکہ جس ایشو کو لیکر جن کٹوتیوں کے خلاف یار لوگ احتجاج کر رہے تھے وہ سب کچھ حکومت کے اس موقف اور اس دلیل کیساتھ حکومت ہی کی کارستانی ہے کہ یونیورسٹیاں اب صوبائی حکومت کے زیر انتظام اور صوبے کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کی پابند ہیں محرومی مایوسی اور ہیجان خیزی کے اس عالم میں ایک معتبر ذرائع سے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حکومت نے گرانٹ کے اعلان پر نظرثانی کرتے ہوئے جامعات الاؤنسز کیلئے اپنی ادائیگیوں کے کھاتے سے اسے ڈیلیٹ کر دیا ہے ادھر جامعہ پشاور کی حد تک ایک تلخ خبر یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کے موجودہ سربراہ مایوس ہو کر یونیورسٹی کیلئے مزید مالی وسائل اکٹھا کرنے سے انکاری ہوگئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملازمین بالخصوص اساتذہ نہ تعاون نہیں کر رہے اور جامعہ کو مالی ابتری اور بجٹ خسارے سے نکالنے میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے تیار نہیں بلکہ ان کی حالیہ احتجاجی تحریک میں انہوں نے ان کی زبانی جو کچھ سنا اور جو کچھ ان تک بالواسطہ پہنچ گیا
اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان لوگوں کی ذہنیت میں اپنی حالت بدلنے کی سوچ کیلئے کوئی جگہ نہیں اب اگر حالت ایسی رہے تو یہ کہنا قبل از وقت نہیں ہوگا کہ یونیورسٹی کا ایک بار پھر بیسک پے کی ابتر حالت تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور پھر اس وقت دیکھا جائے گا کہ الاؤنسز یا مراعات سے قدرے کٹوتی کیخلاف کئی کئی ہفتے تالہ بندی کرنے والے کیا کرتے ہیں؟ دھرنا کیمپ کے مائیک سے یونیورسٹی انتظامیہ کے تین بڑوں کا ذکر جس انداز میں کیا گیا ہے ان کے مطابق انہوں نے ان بے بنیاد الزام تراشیوں کو اگرچہ نہایت ٹھنڈے دل و دماغ کیساتھ محسوس اور برداشت تو کیا ہے مگر اس سے یونیورسٹی اور اسکے ملازمین کے استحکام اور فلاح و بہبود کیلئے ان کے کچھ کرنے کے عزم اور جذبے کو جس طرح مجروح کیاگیا
اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا یقینا جب باہمی احترام و تعاون کا جذبہ معدوم اور ایک دوسرے کیخلاف نبرد آزما ہونے کی فضا قائم ہو جائے اور حکومت اپنی پالیسی اور ترجیحات کے مطابق یونیورسٹی کی مالی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ کر مزید پیچھے ہٹ جائے تو یونیورسٹی کیسے چلے گی؟ محض فیسوں اور چارجز سے؟ قطعاً نہیں‘بلکہ اس میں کچھ کٹوتیوں کی شکل میں انتظامیہ نے یونیورسٹی کا اپنا حصہ ڈالنے کی جو کوشش کی تھی وہ بھی حالیہ تالہ بندی کی نذر ہوگئی اب محض یہ ایک بات رہ گئی کہ ملازمین اس بات پر زور دیتے رہیں گے کہ یونیورسٹی کیلئے مالی وسائل کا انتظام وائس چانسلررجسٹرار ٹریژرر اور ڈائریکٹر منصوبہ بندی کا کام ہے ان کی ذمہ داری نہیں میرا اندازہ بلکہ خدشہ تو یہ ہے کہ عدم تعاون اور عدم اعتماد کی اس موجودہ فضا میں ملازمین کا یہ موقف خیال اور بات بے
برگ و ثمر ہی رہے گی اگر کوئی مجھ سے متفق نہ ہو تو پھر تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا اگر انتظامی سربراہ اور ان کی ٹیم اور ساتھ ہی ملازمین تنظیموں نے اپنی سوچ اور طرز عمل پر نظرثانی نہیں کی توحال کی اس کیفیت کا نتیجہ مستقبل قریب میں سب کے سامنے ہوگا اب اگر حکومت مالی تعاون نہ کرے‘ ملازمین مالی ابتری کے خاتمے میں اپنا حصہ نہ ڈالنے انتظامیہ مایوسی کے عالم سے باہر نہ آنے اور طلباء فیسوں اور چارجز میں مزید اضافہ برداشت نہ کرنے میں سنجیدہ ہوں تو لامحالہ یونیورسٹی کو تالہ لگنے کی نوبت آئے گی مگر وہ ملازمین کے احتجاج اور ہڑتال کے سبب نہیں بلکہ مالی بدحالی کے ہاتھوں ہوگی۔