روس یوکرین تنازعے میں نیا موڑ

ملک میں سیاسی منظر نامہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے مستقبل کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، خدا کرے کہ جلد سیاسی استحکام آئے،جہاں تک روس اور یوکرائن کے تنازعے کا تعلق ہے اس میں نیا موڑ آگیا ہے اور اب سفارتی جنگ کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔جو تازہ ترین اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں اور مغربی میڈیا جو کچھ سامنے لا رہاہے اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ روسی فوجیوں نے یوکرائن میں سویلین آبادی کے ساتھ جس سلوک کا مظاہرہ کیا ہے وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آ تا ہے اور یورپ کے کئی ممالک میں ان جرائم کی روزانہ نشاندہی کی جا رہی ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ  یہ مغربی میڈیا کی خبریں ہیں اور ان کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ تاہم جنگ میں اگر انتقام کا جذبہ شامل ہوتو ایسے واقعات کا سامنے آنا بعید نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پیوٹن مغرب سے انتقام کے جذبے سے سرشار ہے۔

یوکرین  پر رو س کے حملے سے جو بحران پیدا ہوگیا ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔یوکرین کے بوچہ قصبے میں روسی فورسز کے مبینہ  مظالم کے بعد کئی یورپی ملکوں نے اپنے یہاں سے روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا۔ ماسکو نے بھی جوابی کاروائی کی دھمکی دی ہے۔جرمن حکومت نے 40 روسی سفارت کاروں کو ناپسندیدہ افرادقرار دیا ہے۔ وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک نے اس کا اعلان کیا۔ جس کے بعد ان سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔انالینا بیئر بوک نے کہاکہ جرمن حکومت نے یہاں روسی سفارت خانے میں کام کرنے والے بہت سے اراکین کو ناپسندیدہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے، جوہماری آزادی اور ہماری سماجی آہنگی کے خلاف جرمنی میں کام کررہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم انہیں مزید برداشت نہیں کریں گے۔جرمن وزیر خارجہ کے مطابق روسی سفیر سرگئی نیتھائیف کو وزارت خارجہ کے دفتر میں طلب کیا گیا اور انہیں برلن کے فیصلے سے آگاہ کردیا گیا۔ جن سفارت کاروں کو ملک بدر کیا گیا ہے انہیں پانچ دن کے اندر جرمنی چھوڑ دینا ہوگا۔  جرمنی نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ سفارت کار مبینہ طورپر روسی انٹلی جنس سروسز سے وابستہ تھے۔روسی سفارت کاروں کوملک بدر کرنے کا فیصلہ یوکرین کے دارالحکومت کیف کے نواح میں واقع بوچہ شہر میں روسی فورسز کی مبینہ زیادیتوں کے بعد کیا گیا۔دوسری طرف روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے جرمنی کے فیصلے کوجرمن سیاسی مشین کے ذریعہ بدنیتی پر محمول اقدام قرار دیا۔روس کے سابق صدر دیمتری میدیدیف نے کہا کہ مغربی ملکوں کو روسی سفیروں کی ملک بدری کیلئے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اور یہ باہمی تعلقات کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔فرانسیسی وزارت خارجہ نے اپنے سکیورٹی مفادات کے مدنظر سفارتی حیثیت رکھنے والے متعدد روسی ملازمین کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ فرانس کی ذمہ داری ہے کہ فرانسیسیوں اور یورپی شہریوں کی سلامتی کی ہمیشہ ضمانت دے۔ فرانس کے فیصلے سے 35 روسی اہلکارمتاثر ہوں گے۔لیتھوانیا بھی روسی سفیر کو ملک بدر کررہا ہے اور کلائی پیڈا میں واقع روسی قونصل خانے کو بند کررہا ہے۔لیتھوانیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق یہ فیصلہ بوچہ میں روسی فورسز کے جنگی جرائم کے انکشاف کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

لتھوانیا ماسکو سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا رہا ہے۔اسٹونیا نے بھی روسی سفیر کو طلب کیا اور بوچہ میں روسی فورسز کے ہاتھوں شہریوں اور مقامی افراد کے قتل کی مذمت کی اس طرح واضح طور پرنظر آرہا ہے کہ روس کے خلاف مغربی ممالک میں رد عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سخت ہونے لگا ہے اور یہ تنازعہ زیادہ نازک صورت اختیار کر گیا ہے یعنی اس وقت عالمی منظر نامہ تیسری جنگ عظیم کے خطرے سے دوچار ہے اور جنگ کے بادل چھٹنے کی بجائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔