اس بات سے قطع نظر کہ وفاقی حکومت کی ہونیوالی تبدیلی کے سیاسی محرکات اور اثرات پر غیر ضروری بحث کی جائے خوش آئند بات یہ ہے کہ بحران ٹل گیا اور اب نئی حکومت نے ملک کو بہت سی مشکلات سے نکالنے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہیں خیبرپختونخوا کے گورنر شاہ فرمان کا یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ شہبازشریف کو درکار پروٹوکول نہیں دے سکتے اسلئے وہ مستعفی ہو رہے ہیں ایسا کرنا ان کا حق ہے ویسے بھی ان کو ہٹانا طے تھا اور نئے گورنر نے آنا تھا پختونخوا کی صورتحال دوسرے صوبوں سے بہت مختلف اور پیچیدہ ہے اسلئے بدلتی صورتحال میں یہاں کی عسکری‘ سیاسی اور حکومتی قیادت کو اسی تناظر میں ایک دوسرے کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا یہاں پی ٹی آئی کی حکومت برقرار رہے گی۔ اسلئے وزیر اعلیٰ اور کابینہ وفاقی حکومت سے صوبے کے مفادات اور ضروریات کے پس منظر میں حکمت عملی طے کریں گے تو اسکا صوبے کو فائدہ ہوگا عمران خان اب بھی صوبے کے مقبول لیڈر ہیں دوسرا مسئلہ اس صوبے کے ان قبائلی اضلاع کے حال اور مستقبل سے وابستہ ہے جو کہ بدترین حالات سہنے کے بعد پختونخوا میں ضم کئے گئے ہیں۔
اس سے بڑھ کر پاک افغان بارڈر کی سیکورٹی کا ایشو بھی نہ صرف بہت توجہ طلب ہے بلکہ کراس بارڈر ٹیررازم اور تجارت کی بحالی جیسے معاملات بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں ان مسائل سے نکلنے کا کام صرف صوبائی حکومت کا کام نہیں ہے اسلئے سب کو مل کر غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ حالات پھر سے خراب ہو سکتے ہیں مشاہدے میں آیا ہے کہ صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع کے معاملات سے بڑی حد تک خود کو دوریا لاتعلق رکھا ہے حالانکہ سابق وزیراعظم عمران خان ان علاقوں میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے تھے اس تمام عرصہ کے دوران اگر عملی اقدامات کئے گئے ہیں یا قبائلی عوام کی دادرسی کی گئی ہے تو اس کا کریڈٹ عسکری قیادت اور متعلقہ عسکری اداروں کو ہی جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف ان علاقوں میں امن قائم کیا اور قربانیاں دیں بلکہ عوام کی مشاورت اور تجاویز کے تبادلے کی روشنی میں اس علاقے کے سماجی‘ ثقافتی اور اقتصادی حالات بہتر بنانے پر بھی بھرپور توجہ دی پشاور کے کور کمانڈر اور ان کی ٹیم نے اپنی تمام توجہ قبائلی اضلاع کی تعمیر نو اور بحالی پر مرکوز کئے رکھی انہوں نے جہاں بہت سے دیرینہ مطالبات تسلیم کرکے عملی اقدامات کئے وہاں انہوں نے ان علاقوں کے ریکارڈ دورے کرکے بیورو کریسی کو متحرک کیا اور متعدد عوامی جرگوں میں شرکت کرکے عوامی نمائندوں‘ افسران‘ مشران اور نوجوانوں کی شکایات‘ مطالبات اور تجاویز کو غور سے سن کر ان کو عملی اقدامات کے ذریعے یقین دلایا کہ ریاست ان کے ساتھ ہے اور ان کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی تلافی ہوگی۔ ان علاقوں کی پسماندگی دور کرنے کے لئے بھی منصوبوں پر تیزی کے ساتھ عملدرآمد جاری ہے۔