سیاست میں تشدد اور کشیدگی کا رجحان

قومیں مختلف ادوار میں آزمائشی تجربات سے گزرتی رہتی ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے ہی حال اور مستقبل میں ایک باوقار مقام پاتے ہیں پاکستان کا سیاسی ماحول بدقسمتی سے کبھی بھی مثالی نہیں رہا اسی کا نتیجہ ہے کہ بار بار جمہوری عمل کا تسلسل ٹوٹتا رہا مگر اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کے نتائج سے سبق نہیں سیکھ پاتے اور اسکا عملی مظاہرہ ہم جاری صورتحال کے اثرات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں سیاست ایک جہد مسلسل‘ برداشت اور تجربات کا نام ہے اور سیاسی قائدین نہ صرف نظام حکومت چلاتے ہیں بلکہ وہ افراد قوم اور معاشرے کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں تاہم پاکستان میں سیاست کا مفہوم اور مقصد صرف اقتدار کے حصول کا نام رہ گیاہے اور حصول اقتدار کی رسہ کشی میں ہمارے قائدین نہ صرف قومی اداروں کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیتے ہیں بلکہ وہ معاشرے کے بگاڑ اور سماجی کشیدگی کی وجہ بھی بنتے ہیں جو کہ ایک خطرناک رویہ اور عمل ہے یہ بیانیہ یا رویہ ہمارے نظام‘ ریاست اور معاشرے کیلئے بہت خطرناک ہے کہ ہم اقتدار کی رسہ کشی اور کشیدگی میں برداشت‘ صبر اور درگزر جیسے ضروری عوامل کو داؤ پر لگا کر نہ صرف اداروں کو مشکوک بناتے ہیں بلکہ معاشرے کی تقسیم اور تصادم کا راستہ بھی ہموار کرتے ہیں۔
1970ء کی دہائی میں سیاسی قائدین نے متحد ہو کر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس اتحاد کے نتیجے میں انہوں نے قوم کو1973 کا آئین دیا تاہم کچھ ہی عرصے بعد جناب بھٹو کی حکومت اپوزیشن پر چڑھ دوڑی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم1973ء کے آئین کے ثمرات سے مستفید نہ ہو سکے اور کشیدگی میں اتنا اضافہ ہوا کہ بات فوجی مداخلت تک پہنچ گئی تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر غیر آئینی کام کیا تھا تو اس صورتحال کی ذمہ داری اس وقت کی سیاسی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے1988ء کے بعد توقع ہو چلی تھی کہ حالات کے درکار تقاضوں کے مطابق ہم درست سمت میں آگے بڑھنا شروع ہوجائینگے مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اور سیاستدانوں کے آپس کے اختلافات اور سازشوں کے باعث جمہوری حکومتیں ٹوٹتی رہی اگر ہم آج کے حالات کا90 کی دہائی کے کشیدگی حالات کے ساتھ موازنہ کرلیں تو ثابت یہ ہوگا کہ شاید ہم اس دور کا پارٹ ٹو دیکھ رہے ہیں۔
 اہم اداروں اور عالمی طاقتوں کے کردار کو اسی زمانے میں بھی بطور ہتھیار استعمال کیا گیا اور اتنے تلخ تجربات کے باوجود انہی ہتھیاروں کو آج بھی استعمال کیاجارہا ہے غداری کے تمغے ان ادوار میں بھی ایک دوسرے کے سینوں پر لگائے گئے اور آج بھی یہ عمل دوطرفہ انداز میں پورے اہتمام کے ساتھ جاری ہے مطلب یہ کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا؟ حالیہ کشیدگی صرف اقتدار کی ایوانوں تک محدود دکھائی نہیں دی بلکہ اس کا منفی اثر معاشرے کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جسکی مثال ہم ان واقعات کی صورت میں دے سکتے ہیں جو کہ ہم نے تیمر گرہ دیر‘ اسلام آباد کے ایک ہوٹل‘ لندن کی ایک گلی اور متعدد دوسرے مقامات میں دیکھا جبکہ نام و نہاد سوشل میڈیا کے ذریعے پڑھے لکھے لوگ جس طریقے سے ایک دوسرے سے مخاطب ہیں وہ ایک ایسی بدترین مثال ہے جس نے ہماری سیاست کے علاوہ معاشرت‘ ثقافت اور سب سے بڑھ کر تربیت کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
 غالباً اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ روز ہونیوالے عسکری قیادت کے اہم اجلاس میں اس صورتحال کا نہ صرف سخت نوٹس لیکر اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ کھلے عام اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس سلسلے کو ہر صورت روکا جائے گا تاکہ معاشرہ تقسیم نہ ہو ہمارے قائدین کا اس صورتحال میں اولین فرض یہ بنتا ہے کہ وہ اقتدار کے اس کھیل کے منفی اثرات سے اداروں اور معاشرے کو دور رکھیں ورنہ اس رویے کے انتہائی منفی نتائج برآمد ہونگے یہ ملک ہے تو سب کو سیاست اور حکومت کے مواقع ملتے رہیں گے اور اس کیلئے ایک سیاسی جمہوری نظام پہلے ہی سے موجود ہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مشکل حالات اور علاقائی چیلنجز سے دوچار اس ملک کو مزید کسی آزمائش یا حادثے سے بچاکر اپنی اپنی باری کا انتظار کیا جائے۔