جنگ کے خطرات ابھی ٹلے نہیں 

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے اور یہ طول اس لئے پکڑ گئی ہے کہ یوکرین کے صدر نے غیر معمولی جرآت کا مظاہرہ کیا ہے اور نا مساعد حالات کے باوجود بڑی بے جگری سے روسی افواج کا مقابلہ کیا ہے باوجود اس حقیقت کے کہ یوکرین کی عسکری قوت روس کے مقا بلے میں نہ ہونے کے برابر تھی اور امریکہ اور یوروپین ممالک نے بھی یوکرین کی صرف  ہلہ شیری ہی  کی جو  اب تک صرف زبانی  جمع  خرچی ہی ثابت ہوئی ہے۔ عملًا انہوں نے یوکرین کی کوئی خاطر خواہ مدد نہیں کی ہے پر اس کے باوجود  یوکرین کے صدر نے غیر معمولی ثابت قدمی کے ساتھ یوکرین سے کئی درجے طاقتور ملک کا مقابلہ کیا ہے جو ملٹری کی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔ بادی النظر میں روسی صدر اپنے سیاسی عزائم میں کامیاب نظر آتے ہیں انہوں نے اپنے اس عمل سے وسطی ایشیا کی ان دیگر ریاستوں کے مورال کو بھی کمزور کر دیاہے جو کبھی روس کا حصہ تھے اور آج امریکہ کے سیاسی کیمپ میں جا بیٹھے ہیں روس کے ہاتھوں یوکرین کا حشر نشر دیکھ کر ان کو اپنے مستقبل کی فکر دامن گیرہو چکی ہے اس بات میں تو کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ پیوٹن کا سیاسی حدف یہ ہے کہ وہ وسطی ایشیا کی ان تمام ریاستوں کو دوبارہ سوویت یونین کا حصہ بنائے کہ جو کبھی روس کا حصہ تھے اس مقصد کے حصول کیلئے یوکرین پر حملہ روسی صدر کا  پہلا قدم تھا،ایک طرف اگر یوکرین نے بھر پور مزاحمت کی تاریخ رقم کی ہے تو دوسری طرف روس بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے بہت سارے ممالک کو اشارہ دینے میں کامیاب رہا ہے۔

جنگ عظیم دوم کے بعد کسی بھی ملک پر اس طرح کھل کر حملہ کرنا یقینا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے حیرت کا باعث بنا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ روس کو توقع سے زیادہ مزاحمت کا سامنا ہے۔ مگر وہ بھی اپنے مقاصد کے حصول کے بعد ہی جنگ بند کریگا۔ جن علاقوں کو وہ یوکرین سے آزاد کرانا چاہتا ہے وہ بھی آزاد کرکے رہیگا اور جن شرائط پر جنگ بندی چاہتا ہے وہ بھی کرکے دکھائے گا۔ کیونکہ یوکرین ہزار مزاحمت کرے مگر جس قدر نقصان کا اسے سامنا ہے وہ زیادہ دیر تک برداشت کرنا ممکن نہیں۔ روس یوکرین جنگ میں روس کے ایک جدید اور اہم بحری جنگ جہاز کی تباہی بھی اہم واقعہ سمجھا جارہا ہے۔دونوں طرف سے جہاز کو آگ لگنے اور ڈوبنے کی مختلف وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔روس کا کہنا ہے کہ جہاز پر آگ لگنے سے وہاں موجود اسلحہ پھٹ گیا تھا جس کی وجہ سے جہاز اس وقت ڈوب گیا جب اسے کھینچ کر لے جایا جا رہا تھا۔ جبکہ یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ ان کے میزائل حملے کے بعد ہوا ہے۔میڈیا پر اس جہاز کی نئی تصاویر گردش کر رہی ہیں۔اگرچہ نئی تصاویر سے دونوں فریقوں کے دعوؤں کی تصدیق تو نہیں ہوتی کہ کون سچا ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ اس جنگ میں اہم ترین واقعہ ہے۔ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے  جو کہ ممکنہ طور پر امدادی کاروائیوں کے لئے  بھیجی گئی کشتی پر سے بنائی گئی،  جس میں جنگی بحری جہاز موسکووا کو دور سے ایک طرف جھکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اس کو کھینچنے والی کشتی دائیں جانب ہے

۔جہاز سے دھواں نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے اور یہ بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ ایک تصویر میں فری بورڈ کے دوسرے حصوں میں بھی سوراخ نمایاں ہیں، جس سے لگتا ہے کہ جنگی جہاز میں کافی پانی داخل ہو چکا تھا یوکرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ بدھ اس نے موسکووا کو اپنے نئے بنائے گئے دو نیپچون میزائلوں سے تباہ کیا تھا۔ نام نہ ظاہر کرنے والے دو امریکی اہلکاروں نے بھی کہا ہے کہ وہ یوکرین کے موقف پر یقین کرتے ہیں۔روس کا دعوی ہے کہ جہاز ایک دھماکے کے بعد تباہ ہوا اور پھر سمندر کی طوفانی لہروں کی وجہ سے غرق ہو گیا۔ایک طرح سے امریکہ نے روس کو ایک طویل  جنگ میں جھونک دیا ہے جس سے نکلنے کی صورت میں اگر روس جنگ جیت بھی جائے تو یقینا یہ جیت ایک بہت بڑے معاشی نقصان کے بدلے میں ہوگی۔ جس کی تلافی کیلئے ایک طویل وقت لگے گا۔  ایسے دور میں کہ جب دنیا بھر میں معاشی طاقت کے بل پر ہی ممالک ایک دوسرے پر حکمرانی کرتے ہیں، روس کیلئے سیاسی جیت اگر معاشی نقصان کے بدلے میں ہے تو یہ ایک بہت بڑی قیمت ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ روس اور یوکرین جنگ نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا ہے اور یورپی ممالک کی پالیسیوں میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔یوکرین پر روسی حملے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو نیٹو اور امریکہ سے ہٹ کر اپنے دفاع کیلئے بھی کچھ کرنا پڑیگا۔کیونکہ یوکرین پر روسی حملے میں نہ تو نیٹو تنظیم مزاحمت کرسکی ہے اور نہ ہی امریکہ اس حملے کو روک سکا ہے۔آگے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اتنا ضرور ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے خطرات ابھی ٹلے نہیں۔