جامعات میں سنڈیکیٹ کی مثال قومی اسمبلی کی ہوتی ہے اس باڈی میں تمام قوانین‘ ترامیم اور فیصلوں جیسے بنیادی امور نمٹائے جانتے ہیں سنڈیکیٹ کے وجودکے اجزاء یا اعضاء میں بعض اراکین بلحاظ عہدہ رکن ہوا کرتے ہیں جبکہ بعض کی نامزدگی گورنر یعنی چانسلر اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے کی جاتی ہے البتہ اساتذہ اور انتظامی افسران کی نمائندگی کی نشستوں پر قواعد کے تحت باقاعدہ انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے جامعہ پشاور کی سنڈیکیٹ میں کچھ عرصہ سے اساتذہ کی نمائندگی بھرپور نہیں مگر پھر بھی اسسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرار کی نشستوں پر فیکلٹی کے دو نمائندے حتی الوسع اپنی آواز اٹھانے میں ذرا بھر کمزوری نہیں دکھاتے شاید یہی وجہ تھی کہ 4مارچ اور بعدازاں 14مارچ سے شروع ہونے والی تالہ بندی اور دھرنا احتجاج کے خاتمے کیلئے تشکیل دی گئی مذاکراتی کمیٹی کے ہفتہ بھر نشستند اور گفتند کے نتیجے میں جو فیصلے کئے گئے15 اپریل کے سنڈیکیٹ میں تفصیلی بحث و تکرار اور اپنے اپنے موقف پر زور دینے جیسی فضا کے باوجود پس پشت ڈالنے کی بجائے کسی حد تک تسلیم ہوئے اور یوں یونیورسٹی اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی ہڑتال اور دھرنا کیمپ کا خدشہ بلکہ خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا۔
وقتی طور پر اس لئے کہ ملازمین کے مطالبات میں بعض بنیادی ڈیمانڈ ایسی ہیں جنہیں پورا کرنے کا انحصار وفاقی اور صوبائی گرانٹ پر ہے جبکہ گرانٹ کی حالت یہ ہے کہ مالی سال2021-22 ء کے بجٹ میں یونیورسٹی ملازمین کیلئے اعلان کردہ الاؤنسز کی ادائیگی کیلئے حکومتی گرانٹ سال 2022-23ء کا بجٹ قریب آنے تک واجب الادا ہے ایسی ہی حالت ڈسپیریٹی الاؤنس کی بھی ہوگی جس کا یونیورسٹی انتظامیہ نے سنڈیکیٹ کے فلور یا فورم پر حکومتی گرانٹ کی فراہمی کی آس لگائے ملازمین سے مشروط وعدہ کیا ہے مطلب یہ کہ اگر حکومت نے گرانٹ دیدی تو گزشتہ بجٹ میں اعلان شدہ20فیصد ٹیچنگ الاؤنس جبکہ کلاس تھری اور کلاس فور کے حصے کیساتھ ڈسپیریٹی الاؤنس بھی دوسرے سرکاری ملازمین کی طرح یونیورسٹی میں بھی دیا جائیگا بصورت دیگر کسی خوشی کو انجوائے کرنے سے خوشخبری کی کیفیت زیادہ میٹھی ہوتی ہے المیہ یہ ہے کہ تعلیم کسی بھی دور حکومت میں صاحب اقتدار طبقے کی پالیسیوں اور ترجیحات میں شامل نہیں رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ21ویں صدی کے تقاضوں کے برعکس ہماری تعلیم پیش رفت اور جدت کی بجائے پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ رہی ہے جامعہ پشاور سنڈیکیٹ کے حالیہ سیشن میں کلاس تھری اور کلاس فور ملازمین کے بچوں پر لاگو کی گئی فیس میں قدرے کمی کا وعدہ کرکے معاملے کو کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے لہٰذا کوئی بھی اس ناامیدی اور بے یقینی کا اظہار نہ کریں کہ جس معاملے اور مسئلے کو حل کرنا مقصود نہ ہو وہ کمیٹی کے حوالے کیا جاتا ہے ممکن ہے کہ مسئلہ کمیٹی کے ذریعے حل ہو جائے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمیٹی گفتند کیلئے نشستند کی زحمت ہی گوارا نہ کرے جامعہ بلکہ تعلیم کے بہی خواہ تو یہی چاہیں گے کہ ملازمین کی 16روزہ تالہ بندی کے دوران ایک درجن سے زائد مطالبات پر مشتمل جو ڈیمانڈ نوٹس انتظامیہ کے سامنے رکھ کر ایک ہفتہ سے زائد وقت اس پر مذاکرات ہوتے رہے اسے من وعن تسلیم کرکے پورا کیا جائے لیکن لگتا ہے۔
کچھ یوں ہے کہ شاید ایسا ممکن نہ ہوگا کیونکہ اس سارے معاملے کے حل کا انحصار پیسے پر ہے اور پیسہ ہمارے ہاں کم از کم تعلیم کیلئے تو نہیں بہتر ہو کہ تعلیم بھی سیاست بازی اور اقتدار پرستی کی طرح ایک نہایت مفید اور ناگزیر چیز ہو جائے تو پھر ہر کوئی دیکھے گا کہ باہر کے سودی قرضوں کا ایک خاص حصہ تعلیم کیلئے مختص ہوگا اب اگر طویل احتجاج اور مذاکرات کے نتیجے میں سنڈیکیٹ کچھ نہ کچھ ملازمین کی جھولی میں ڈال بھی دیتی ہے تو چاہئے کہ اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین ان عمررسیدہ بیمار مرد وخواتین اور ان طلباء اور طالبات کی تکلیف اور پریشانی کو فراموش نہیں کریں جو مسلسل دو ہفتے یونیورسٹی کے شعبہ مالیات اور سیکریسی آکر مایوس لوٹتے رہے یونیورسٹی ملازمین یہ بات ذہن نشین کریں کہ یہ محرومیاں‘ احتجاج اور روز افزوں تعلیمی پسماندگی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب انتظامیہ اور ملازمین بالخصوص انتظامی سربراہ اور فیکلٹی کے نمائندوں کے مابین چپقلش اور رسہ کشی کی فضا ختم نہ ہو اور حکومت100فیصد سے کہیں زیادہ مہنگائی کے اس دور میں تعلیمی بجٹ میں کم از کم50 فیصد اضافہ نہ کرے بصورت دیگر خدشے اور خطرے بدستور رہیں گے اگر ایک ٹل جائے تو دوسرا نمودار ہوگا۔