تعطل ٹوٹ گیا؟

جامعہ پشاور کے اساتذہ کی ایک خاص تعداد گزشتہ کئی سال سے ترقیوں کی منتظر تھی ان میں بہت سارے لیکچرار‘ اسسٹنٹ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر اگلے گریڈ میں پروموٹ ہونے کیلئے سلیکشن بورڈ کے مرحلے سے گزر گئے تھے مگر کیس کا سندیکیٹ میں پیش ہونا تعطل کا شکار تھا بہرکیف دیرآید درست آید کے مصداق اب بھی اگر حقدار کو اپنا حق مل جائے تو بڑی غنیمت ہوگی البتہ ان ترقیوں کو اگر سلیکشن بورڈ کی تاریخ سے شمار کیا جائے تو مزید بہتری کی بات ہوگی ترقی کے منتظر اساتذہ میں صرف آرکیالوجی کے ڈاکٹر ذاکر اللہ جان‘ شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی ڈاکٹر منہاس مجید یا شعبہ اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس کی خواتین اساتذہ شامل نہیں تھیں بلکہ جناح کالج اور ہوم اکنامکس کالج کی معلمات نے بھی طویل صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا کہتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اب جبکہ آئندہ سنڈیکیٹ میں سلیکشن بورڈ کی سفارشات پر مہر توثیق ثبت ہونے کی شکل میں اساتذہ بالخصوص فی میل ٹیچنگ سٹاف کو اپنے طویل صبر کا صلہ مل جائے تو تب مبارکباد اور منہ میٹھا کرنے کی باری آئے گی

ان میں دگنی چوگنی ترقی والی خواتین اساتذہ تو ممکن ہے کہ صدقے والے بکرے بھی ذبح کرلیں جو بیک وقت اسسٹنٹ سے ایسوسی ایٹ اور ایسوسی ایٹ سے گریڈ21 کی فل پروفیسر بننے والی ہیں ہاں تو اسی جامعہ میں ایک خوش نصیب ایسا بھی ہے جن کی سپیڈلی ترقیوں کیلئے کوئی زیادہ صبرآزمائی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا میں جامعہ کے موجودہ پروووائس چانسلر کی بات کر رہا ہوں جو کہ بیک وقت پروو ائس چانسلر کیساتھ ساتھ ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز اور قائمقام ڈین فیکلٹی آف مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سائنسز ڈین فیکلٹی آف لائف اینڈ انوائرمینٹل سائنسز اور ڈائریکٹر چائنا سٹڈی سیل ہیں بلکہ بڑی بات یہ بھی ہے کہ ملازمین کے شور شرابہ کی صورت میں وائس چانسلر کی طرف سے مذاکرات کار کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے مطلب یہ کہ یہ بندہ صرف اور صرف کام کام اورکام کیلئے پیدا ہوئے ہیں لہٰذا ہماری دعا ہے کہ ڈاکٹر زاہد انور کو ان بھاری بھر کم ترقیوں کیساتھ ساتھ بلاتاخیر گریڈ22کے میئرٹیوریس پروفیسر بھی بنایا جائے

تاکہ ہم جیسے بے لوث بہی خوا ہوں کو ایک اور مبارکباد کا موقع بھی میسر آسکے کیا بہتر ہوگا کہ یہ تمام تر ترقیاں‘ توانائیاں اثرورسوخ اور رسائیاں یکجا ہو جائیں اور ملک کی قدیم درسگاہ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے مشن کیلئے بروئے کار لائی جائیں جامعہ کی انتظامیہ اور دوسرے ملازمین بالخصوص فیکلٹی کے مابین رسہ کشی کی موجودہ فضا اور ایک دوسرے کو حلیف کی بجائے حریف سمجھنے کی ذہنیت یونیورسٹی کی ترقی اور استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے میرے نزدیک تو جس طرح وائس چانسلر نے امسال رمضان میں دفتری اوقات کار کا تعین کچھ اس طریق پر کر دیا کہ ملازمین کی واضح اکثریت دفتری وقت ہڑپ کرنے سے بچ گئی اور ساتھ ہی لٹکے ہوئے سلیکشن بورڈ کا اہتمام کیا بالکل اسی جذبے‘نظریئے اور طریق کے مطابق سب کو ساتھ لیکر چلنے کی سعی کرنا بھی ناگزیر ہے ہاں تو کوئی یہ کامیابی بھی معمولی نہ سمجھیں کہ جامعہ پشاور عالمی درجہ بندی کے حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں ملکی سطح پر ایک درجہ بہتر ہو کر چھٹے سے پانچویں درجے پر آگئی ہے لیکن حقیقی کامیابی اور ترقی اس وقت ہوگی جب ملک کی قدیم درسگاہ کا انتظام و انصرام جبکہ تدریس و تحقیق اور تربیت کا معیار اس سطح پر پہنچ جائے جس کی ایک جامعہ سے توقع کی جا سکتی ہے جامعہ پشاور میں نفاق اور رسہ کشی کی موجودہ فضا جبکہ اونر شپ کے جذبے اور احساس ذمہ داری کا فقدان سب سے بڑا المیہ اور پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے جس طرح سلیکشن بورڈ کا تعطل ٹوٹ گیا بہتر ہوگا کہ باہمی احترام و تعاون کی راہ میں حائل تعطل بھی ٹوٹ جائے۔