یونیورسٹی کیمپس‘ ماضی کا ایک ورق 

میری پیشہ وارانہ زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ یونیورسٹی کیمپس میں گزر گیا گزشتہ 21سال کے دوران بہت کچھ دیکھا، سیکھا، جانچا اور پرکھا اور کچھ تلخ یادیں بھی ذہن کی تختی پر نقش ہو کر رہ گئیں، پشاور یونیورسٹی کے بعض ریٹائرڈ ملازمین جب کبھی کبھار ملتے ہیں تو کیمپس کے اس وقت کاتذکرہ ضرور کرتے ہیں جس وقت زرعی کالج، انجینئرنگ کالج، اسلامیہ کالج اور میڈیکل کالج یعنی تمام تعلیمی ادارے جامعہ پشاور کا حصہ تھے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت یونیورسٹی کا ایک سیکورٹی ایڈمن افسر ہوا کرتا تھا جس کا نام اعظم جان لالا تھا اور انہوں نے تن تنہا پوری یونیورسٹی کو اپنی مٹھی میں محفوظ کرلیا تھا وہ روزانہ علی الصبح سے دن بھر اپنی جیپ میں کیمپس کے گشت پر ہوا کرتے تھے کسی کی کیا مجال تھی کہ ہلڑ بازی، ون ویلنگ، سکریچنگ، بھیک مانگنے، آوارہ گردی، پریشر ہارن، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پارکنگ، صبح سویرے کی بجائے دن آٹھ بجے جھاڑو دینے اور طلبہ سے فی کپ چائے کے ساٹھ روپے وصول کرنے کی جرأت کرتا۔ یہ تمام مسائل تقریباً اس وقت بھی تھے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ مسائل سے نمٹنے کی صلاحیتیں تھیں اور احساس ذمہ داری کا فقدان نہیں تھا۔ مانتے ہیں کہ اس وقت کیمپس پرمسلط سینکڑوں پک اینڈ ڈراپ‘پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیاں اور بلا ضرورت رکشوں کی موجودہ جیسی بہتات نہیں تھی مگر یہ رائے بھی تو دی جا سکتی ہے کہ اس وقت کے تھوڑے سے مسائل کواگر نظر انداز کر لیا جاتا اور آنکھیں چرا کر ”سب اچھا“ کی رٹ کو معمول بنا لیا جاتا تو ممکن ہے کہ آج سے تیس چالیس برس قبل بھی یونیورسٹی کیمپس کی حالت ایک حد تک ایسی ہی ابتر ہو جاتی جیسی گزشتہ چند سال سے ہے اور اس ابتری میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے گزشتہ کچھ عرصہ سے کیمپس کی قدیم درسگاہ جو کہ یہاں پر قائم تمام تعلیمی اداروں (اسلامیہ کالج کے علاوہ) کی بنیاد ہے یعنی یہ تمام جامعہ پشاور کی پیداوار ہیں اور اب قدیم درسگاہ کی حالت اور حدود اربع کچھ یوں ہے کہ محض روڈ نمبر 2تک محدود ہوگئی ہے فیکلٹی اور انتظامیہ کی رسہ کشی اور چپقلش کے سبب جو ناہموار بلکہ عمل اور رد عمل کی فضا قائم ہوئی ہے ایسے میں بہت سارے بہی خواہ حلقوں کو یونیورسٹی کے بنیادی سٹیک ہولڈر یعنی طلباء کے بارے میں اپنی سوچ و بچار نے پریشان کررکھا ہے۔ بعض معاملہ فہم لوگوں کے نزدیک بڑھتی ہوئی اس ابتری کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو قاعدے قانون اور احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے اگر قواعد و ضوابط اور ایکٹ کی پاسداری کی جائے تو اب بھی وقت ہے کہ یونیورسٹی کو مزید بدحالی سے بچایا جائے۔ عمل اور رد عمل یعنی چھاپوں اور جوابی چھاپوں کے اس رجحان میں قدرے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے سنجیدہ حلقوں کا یہ موقف بے جا نہیں ہے کہ وقت کی پابندی محض اساتذہ کیلئے نہیں بلکہ جامعہ کے ہر ملازم کیلئے لازمی ہے جس میں انتظامیہ اور اس کے افسران بھی شامل ہیں۔ اب اگر انتظامی سربراہ تدریسی شعبہ جات پر چھاپے مار کر اساتذہ کی حاضری چیک کرنا اور غیر حاضر یا مقررہ وقت سے قدرے لیٹ آنیوالے اساتذہ کی تنخواہوں سے کٹوتی شروع کردے تو لازماً فیکلٹی بالخصوص اس کے منتخب نمائندوں کی طرف سے افسران کے دفاتر پر بھی چھاپے پڑینگے اور اس کی ویڈیوز وائرل ہونگی اور یوں حالت اس نہج پر پہنچے گی جو اس وقت سب کے سامنے ہے انتظامیہ بالخصوص انتظامی سربراہ کو یہ نکتہ سمجھنا از حد ضروری ہے کہ فیکلٹی بالخصوص اس کا واضح اکثریتی فورم خدانخواستہ کوئی متوازی انتظامیہ نہیں ہے بلکہ اساتذہ، نان ٹیچنگ سٹاف اور ایڈمنسٹریٹو آفیسرز تمام تر جامعہ پشاور کے وجود کے اعضاء اور اجزاء ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ پشاور یونیورسٹی میں چھ سوسے زائد اساتذہ پر مشتمل ایک ایسوسی ایشن قائم ہے اور وہ باقاعدہ آئین کے تحت کام کررہی ہے۔ ایسے فورم امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی قائم ہیں مگر وہاں پر کسی حکومت کسی انتظامیہ نے اساتذہ، ڈاکٹرز اور انجینئرز وغیرہ کے فورم کو اپنے لئے متوازی انتظامیہ نہیں سمجھا بلکہ ان کے تعاون سے بڑے بڑے کام کئے جاتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ امریکہ اور برطانیہ میں مقیم ایسے پاکستانی اساتذہ ڈاکٹرز اور انجینئرز تو یہاں اپنے ملک اور صوبے میں آکر بھی عوامی فلاح کے کام انجام دیتے ہیں میرے نزدیک تو انتظامیہ اور فیکلٹی کے باہمی تعاون کی بدولت جامعہ پشاور مستقبل قریب میں اس حالت سے نکل کر مالی اور انتظامی استحکام اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کی جانب گامزن ہو سکتی ہے۔