جامعات ملازمین کی عیدین پر اپنی مرضی کی چھٹیوں کی روایت امسال بھی چھوٹی عید پر9 چھٹیوں کی بڑی فراعت کی شکل میں برقرار رہی‘ ہاں اتنا تو خیر ہونا چاہئے کیونکہ اٹھارویں آئینی ترمیم اور اس پر مستزاد صوبائی ترمیمات کے بعد تو بیچاری جامعات کی خود مختاری ویسے بھی اپنی مرضی سے دفتر آنے جانے اور عیدین پر اپنی مرض کی چھٹیاں منانے کی حد تک محدود رہ گئی ہے‘ یقیناً بالکل اسی طرح ہے ورنہ جامعہ پشاور کے ایڈمن بلاک میں بائیو میٹرک حاضری کیلئے لگائی جانے والی مشین کیونکر سٹور کے کباڑ خانے میں جا پہنچتی؟ واقعہ دراصل یہ تھا کہ افسران صاحبان بائیو میٹرک حاضری اپنے لئے عار سمجھتے تھے یعنی آنے جانے میں بائیو میٹرک کی سلامی محض کلاس فور اور کلاس تھری کیلئے واجب تھی اور یوں رفتہ رفتہ وہ بھی بائیو میٹرک کو نظر انداز کرنے کے عادی بن گئے لہٰذا کچھ عرصہ بعد بائیو میٹرک کی ڈیوٹی مُک گئی‘ ویسے جو لوگ جواب طلبی اور جواب دہی کا تھوڑا بہت خوف دل میں رکھتے تھے یعنی بیچارے کلاس فور اور جونیئر کلاس تھری ان کی تعداد تو گزشتہ کچھ عرصے سے اصلاحات کی زد میں آ کر برائے نام رہ گئی ہے۔
مالی ڈرائیور اور چوکیدار بھی اس زمرے میں آتے ہیں‘ اصلاحات کا نتیجہ جو ہونا چاہئے تھا اس کے برعکس نکلا یعنی یونیورسٹی مالی طور پر مستحکم ہونے کی بجائے مزید ابتری سے دو چار ہو گئی‘ یہ تو اللہ بھلا کرے ڈاکٹر محمد ادریس صاحب کا کہ موصوف نے حکومتی آشیر باد‘ ذاتی اثر و رسوخ اور قدرے مراعاتی کٹوتیاں کرکے جامعہ کو بیسک پے کی قابل رحم حالت سے ایسی پوزیشن پر لے آئے کہ اس وقت تنخواہوں کیلئے بینکوں کے سامنے جھولی پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ مگر کیا کہیں کہ مراعاتی کٹوتیاں موصوف کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گئیں اور یوں معاملہ ایک طویل شور شرابے تک جا پہنچا‘ ہر چند کہ یہ مسئلہ تا حال ملازمین کی مرضی کے مطابق حل نہیں ہوا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ ملازمین اپنے طویل احتجاج سے تھکے ہوئے کچھ لو کچھ دو پر راضی ہو گئے ہیں۔
احتجاج کے تذکرے میں خواتین بالخصوص خواتین اساتذہ کو نظر انداز کرنا قرین انصاف نہ ہو گا جنہوں نے تقریباً تین ہفتے کے احتجاج میں روزانہ کئی کئی گھنٹے دھرنا کیمپ میں گزارتے ہوئے ثابت کر دیا کہ وہ بھی جامعہ کے وجود کے اعضاء میں ایک نظر انداز نہ ہونے والا حصہ اور سٹیک ہولڈر میں سے ہیں غالباً یہ اسی زحمت گواری کا نتیجہ تھا کہ جامعہ کے انتظامی سربراہ نے اپنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے سلیکشن بورڈ کا مسلسل اہتمام کیا اور یوں ترقی کے رکے عمل کو بحال کرتے ہوئے سنڈیکیٹ کیلئے جن ملازمین کی ترقیوں کی سفارشات طے کر لیں ان میں خاصی تعداد خواتین کی بھی شامل ہے محض یہ نہیں بلکہ پروفیسر محمد ادریس نے تو وہ منفی روایت بھی توڑ ڈالی جو طویل عرصے سے خصوصاً رمضان میں چلی آ رہی تھی یعنی رمضان میں دفتری اوقات کار کی روایت جو کہ صبح ساڑھے سات یا آٹھ بجے حاضری اور دوپہر کو ڈیڑھ یا دو بجے حاضر کی بجائے آنے کیلئے صبح9 بجے اور جانے کیلئے تین بجے مقرر کرکے روزہ داروں پر بڑا احسان کیا ورنہ یہ لوگ تو نصف سے لیکر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹہ آتے وقت اور تقریباً اتنا ہی جاتے وقت ڈیوٹی کا ٹائم یعنی وہ وقت جس کا انہیں معاوضہ ملتا ہے ہڑپ کرنے کے پکے عادی بن چکے تھے۔
اگرچہ عید کی تعطیلات اور جامعہ کے سنڈیکیٹ میں سرکاری نمائندگی کرنے والے افسران کی سنڈیکیٹ سیشن میں شرکت سے معذرت ملازمین کی دوگنی خوشی کی راہ میں رکاوٹ بنی بہر کیف دیر آید درست آید کے مصداق اب یہ کوئی انہونی بات نہیں رہی کہ اساتذہ اور افسران کی ایک بڑی تعداد بالاخر گریڈ18 سے لیکر گریڈ21 تک ترقیوں سے ہمکنار ہو گی مگر کیا کریں کہ ان میں چوکیدار‘ مالی‘نائب قاصد اور ڈرائیور حضرات شامل نہیں جن کی ایک عرصہ سے جامعہ کو اشد ضرورت ہے بلکہ یوں سمجھ لیں کہ یونیورسٹی افرادی قوت کے بحران کا شکار ہو گئی ہے‘ چوکیداری کیلئے پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں کی جو خدمات حاصل کر لی گئیں ہیں وہ یونیورسٹی کے ان سکیورٹی گارڈز کا نعم البدل نہیں جنہیں کئی کئی سال کام کرنے کے باوجود یونیورسٹی نے اصلاحات یعنی ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے اخراجات میں کمی کے نام پر نکال باہر کیا بعض عاقبت اندیش بہی خواہوں کے مطابق اب بھی وقت ہے کہ ان لوگوں کو بلا کر جامعہ کے انتظام و انصرام میں درپیش مشکلات اور پائی جانیوالی خامیوں کو دور کیا جائے ورنہ وہ وقت بالکل دور نہیں کہ یونیورسٹی رکشوں‘ پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں‘ ون ویلنگ اور سکرپجنگ والوں کی آماجگاہ میں تبدیلی ہو گی اور انتظامیہ کے پاس کوئی علاج کوئی حل نہیں ہو گا۔