درپیش چیلنجز اور قومی قیادت کی ذمہ داریاں 

پاکستان ایک بار پھر بوجوہ ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اور اس بحران نے جہاں ہماری قیادت کوآزمائش میں ڈال رکھا ہے وہاں متعدد بنیادی مسائل سے دو چار کروڑوں عوام بھی کافی تشویش کااظہارکرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ آئین کی بالادستی پر سب متفق ہیں اور یہی  وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر اس ملک  کے محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے‘ ملکوں اور قوموں کی تاریخ میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ چلتا  رہتا ہے اور قومیں مختلف نوعیت کے تجربات سے سیکھتی ہیں‘ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور  اداروں نے بھی ماضی سے کافی کچھ  سیکھا ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام تر سیاسی بے چینی کے باوجود تمام فریقین مسائل کے حل کا نہ صرف ادراک رکھتے ہیں بلکہ سب آئین کو اہم‘ بنیاد اور بالادست قرار دیکر اس پر ہر صورت عمل درآمد کو لازمی‘ ناگزیر بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ مختلف اداروں کے اختیارات اور حدود و قیود کے تعین کے علاوہ  مختلف وفاقی یونٹوں کے درمیان ایک سوشل کنٹریکٹ بھی ہے اور اسی پر چلنے سے بہت سے مسائل کو حل کرنے کا راستہ  ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
 شرط صرف یہ ہے کہ سب کچھ نیک نیتی پر مبنی ہو  جدید ریاستوں کو متعدد سنگین مسائل سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے ان میں نیشنل سکیورٹی‘ متوازن خارجہ پالیسی اور بہتر اقتصادی حالات سرفہرست ہیں‘ پاکستان چونکہ ایک اہم ریجن میں واقع ہے اور اس کے پڑوس میں بھارت‘ چین اور روس جیسے ممالک کے علاوہ ایران اور افغانستان بھی موجود ہیں اس لئے پاکستان کو ہر دور میں متعدد چیلنجز‘ پراکسیز اور سازشوں کا سامنا رہا‘ پاکستان اگر ایک طرف امریکہ کا اتحادی ہے تو دوسری طرف چین اس کا وہ پڑوسی دوست ہے جس نے ہر دور میں دوستی کا حق نبھایا اور سفارتی سطح پر  چین ہمارے ساتھ کھڑا رہا‘ سی پیک کا منصوبہ بھی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض قوتیں اس رشتے اور اس منصوبے کو کمزور اور ناکام بنانے کی عملی کوششیں بھی کرتی آ رہی ہے۔
 اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جہاں ہماری ایک متوازن خارجہ پالیسی لازمی ہے وہاں اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری نیشنل سکیورٹی کے معاملات بھی غیر متنازعہ اور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔پاکستان کو افغان صورتحال کے باعث کئی مشکلات کا  سامنا ہے جس میں قومی سلامتی اور امن کی مکمل بحالی کا چیلنج سرفہرست ہے اور اس سے متعلق معاملات کا عسکری قیادت کو پورا ادراک بھی ہے تاہم اس کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ عسکری قیادت اور اداروں کو سیاسی معاملات اور کشیدگی سے دور رکھا جائے اور سیاسی مسائل کو سیاست‘ پارلیمنٹ کے ذریعے حل کیا جائے یہ بات قابل ستائش  ہے کہ اعلیٰ عسکری  قیادت آئین کی بالادستی کے حقیقی کوششوں اور پالیسی پر مبنی اپنی کمٹمنٹ پر عمل پیرا ہے اور ان کی توجہ سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ ان علاقائی چیلنجز پر مرکوز ہے جن کا ملک کو سامنا ہے اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ قومی سلامتی کے اداروں کا احترام کرکے ان کو کسی بھی قیمت پر متنازعہ نہ ہونے دیا جائے کیونکہ یہ ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور پوری قوم کی شدید خواہش بھی۔جہاں تک جمہوری نظام کا تعلق ہے۔
 اس پر دو آراء ہیں ہی نہیں کہ ہمارا مستقبل جمہوریت اور آئین کی بالادستی‘ پاسداری ہی سے وابستہ ہے مسائل موجود ہیں اور اس کے حل کی کوششیں جاری رکھنی چاہیں‘ انتخابی اصلاحات وقت کا تقاضا ہے اور وقت پر الیکشن کاانعقاد بھی ایک آئینی ضرورت ہے ایسے میں قومی قیادت کا فرض بنتا ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر نظام میں موجود کمزوریوں کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور غیر ضروری کشیدگی کا خاتمہ کرکے قومی مفادکو مقدم رکھا جائے۔ پاکستان کا آئینی ڈھانچہ اور جمہوری نظام بہت سے ممالک سے بہتر  ہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ نئے دور کے تقاضوں اورعلاقائی تبدیلیوں کے تناظر میں قومی ذمہ داریوں کا از سر نو تعین کیا جائے اور قومی کو بعض بنیادی ایشوز پر متحد رکھ کر ملکی استحکام‘ وقار اور ترقی کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا جائے۔
پاکستان کو قدرت نے بے پناہ قدرتی اور افرادی قوت‘ صلاحیتوں سے نوازا ہے اور قوم میں بحران سے نمٹنے کا جذبہ بھی ہے اگر ان صلاحیتوں کو گڈ گورننس کے ذریعے بروئے کار لایا جائے تو ایک پر امن اور محفوظ مستقبل ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ماضی میں کئی مرتبہ ثابت ہو چکا ہے کہ قوم کو جب بھی چیلنجز درپیش ہوئے اور مشکلات کا سامنا ہوا تو وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور منظم ہو کر سامنے آئی۔تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اہم قومی مسائل پر یکجہتی اور اتفاق کا اتحاد کا مظاہرہ کریں۔