کہا جاتا ہے کہ گزشتہ تین سال سے کچھ زیادہ عرصے کے دوران پاکستان پربیرونی سودی قرضوں میں 18 سو ارب روپے کا اضافہ ہوا؟ اس میں تعلیم پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ غریب عوام کی فلاح و بہبودکا حصہ کتنا رہا؟ ملک کی تما م سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے کرتا دھرتا اس بات پر متفق ہیں جبکہ ابتداء سے ہر حکومت میں یہ بات دھرائی جاتی ہے کہ تعلیم ہی ترقی کی حقیقی بنیاد ہے مگر کیا کہئے کہ پاکستان میں اس بنیاد کے ڈالنے‘ استوار کرنے اور مستحکم بنانے میں یہاں کی ہر حکومت کی کارکردگی صفر رہی ہے‘ تھوڑا بہت اگر کچھ ہوا بھی تو غیر جمہوری حکومتوں میں ہوا ہے‘ مثال کے طور پر جنرل مشرف کے آمرانہ اور نیم آمرانہ دور میں جب سال2002 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہائرایجوکیشن کمیشن نے لے لی اور ڈاکٹر عطاء الرحمن چیئرمین بن گئے تو ملک میں پہلی بار اعلیٰ تعلیم کی ترقی اور جامعات کی جدید یت اور استحکام پر اس سے زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد اس وقت تک خرچ ہوا تھا اس خرچے کا ہی نتیجہ تھا کہ ملک میں پہلی بار سکالر شپ کی فراہمی اور ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامات شروع کرکے اعلیٰ تعلیم کی ترقی پر توجہ دی گئی‘ جامعات میں پیشہ ورانہ تعلیم و تحقیق کیلئے ادارے قائم ہوئے‘ ہزاروں ریسرچ سکالر ز کو ڈاکٹریٹ‘ پوسٹ ڈاکٹریٹ اور فل برائیٹ کیلئے امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ترقی یافتہ ممالک بھجوایا گیا‘
ہاں یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض وہ سکالرز جو محض پیسہ کمانے کیلئے پی ایچ ڈی بننا چاہتے تھے وہ بیرون ملک روزگار ڈھونڈنے میں کامیاب ہو کر روپوش ہو گئے مگر زیادہ تر واپس آکر اپنے اپنے تعلیمی اداروں کا ایک بار پھر حصہ بن گئے۔ جبکہ نوجوان سکالرز کی خدمات بھی جامعات کوحاصل ہو گئیں‘ اس دوران ملک کی جامعات اور بیرون ملک بیٹھے ریسرچ سکالرز پر ایک مخلوط حکومت کے دور میں قدرے برا وقت بھی آیا جب حکومت نے اعلیٰ تعلیمی بجٹ پر 30 فیصد کٹ لگائی مگر یہ عرصہ مختصر رہا‘ حکومت نے جلد ہی بجٹ کو بحال کر کے بیرون ملک سکالرز کی مشکلات کو بھی حل کر دیاگیا‘ ان ادوار میں بغیر کسی منصوبہ بندی اور تعلیمی بجٹ میں مطلوبہ اضافے کے بغیر سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ تعلیمی اداروں اور ان میں ملازمین کی تعداد بڑھانے جیسے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ کئی عشرے گزرنے کے باوجود تاحال جاری ہے‘ اعلیٰ تعلیم اور جامعات کی ابتری کا باعث بننے والی پالیسیوں اور اقدامات کے تسلسل میں رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب گزشتہ حکومت نے اعلیٰ تعلیمی بجٹ کو بڑی بے دردی سے کاٹ کر پہلے وار میں تو تقریباً نصب کرکے رکھ دیا جبکہ بعد ازاں ہر بجٹ میں آٹے میں نمک کے برابر قدرے اضافہ کرکے اعلیٰ تعلیمی بجٹ جو کہ بے تحاشا مہنگائی کے سبب اخراجات میں کئی گناہ اضافے کے حساب سے کم از کم 100 ارب ہونا چاہئے تھا سرکار نے 60 ارب کے لگ بھگ کر دیا جبکہ تعلیم اور تعلیمی اداروں کی اس دیدنی ابتر حالت میں کورونا وباء نے تعلیم‘ تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں کو کچھ اس طرح جھنجھوڑا
کہ کہیں کا نہیں چھوڑا تعلیمی نظام برباد‘ تعلیمی اداروں کے ذرائع آمدن ٹھپ اور حکومت کی طرف سے کسی تعلیمی پیکج کی فراہمی کی بجائے محض پابندیوں‘ بندشوں‘ احکامات‘ ہدایات اور نصیحتوں کے دور چلنے لگے جس کے سبب تعلیم تعلیمی نظام اور تعلیمی ادارے مسائل کے گرادب میں پھنس کر رہ گئے ایک واضح اورمسلمہ حقیقت ہے کہ سال2002ء سے اعلیٰ تعلیم کی ترقی‘ جدید تحقیق کی ترویج اور جامعات کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا جو مشن شروع ہوا تھا سال2018ء میں حکومتی تبدیلی کے بعد رک گیا کیونکہ ملک بھر کی جامعات کیلئے ہر سال مختص ہونے والے بجٹ پر کٹ لگا کر تقریباً نصف کر دیا گیا حالانکہ نئے دور میں مہنگائی جس عروج پر پہنچ گئی اس کے پیش نظر تعلیمی بجٹ میں دو گنا اضافہ ناگزیر تھا اس کے بعد رہی سہی کسر وبائی صورتحال نے پوری کر دی کیونکہ ایک جانب تعلیمی لاک ڈاؤن کے سبب تعلیمی اداروں کے اپنے ذرائع آمدن ٹھپ ہو گئے جبکہ دوسری جانب محض تعلیم ہی وہ بدقسمت شعبہ تھا جو حکومتی امدادی پیکج سے یکسر محروم رہا۔