افغان حکومت نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے متعلقہ حکام اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مجوزہ مذاکراتی عمل کا اہم مر حلہ ایک فیصلہ کن فیز میں داخل ہو گیا ہے. اس سلسلے میں ٹی ٹی پی نے سیز فائر کے فیصلے میں توسیع بھی کردی ہے۔فریقین کے درمیان مارچ 2021 کو افغان طالبان کی خواہش پر رابطہ کاری کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا تاہم اس میں تیزی امارات اسلامیہ کی حکومت سنبھالنے کے بعد واقع ہوئی کیونکہ پاکستان ان ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجوں کی سرگرمیوں اور حملوں کا خاتمہ چاہتا تھا جنہوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی۔ درمیان میں اس کوشش کے دوران نہ صرف ڈیڈ لاک پیدا ہوئے بلکہ پاکستان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان اس معاملے پر ناراضگی اور کشیدگی بھی پیدا ہوئی‘اسی تعطل کے دوران بعض قبائلی مشران پر مشتمل ایک جرگہ بھی تشکیل دیا گیا جس نے افغان حکومت اور ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے ساتھ متعدد جرگے کرکے موجودہ سلسلے کے دوبارہ شروع کرنے کا راستہ ہموار کیا جبکہ پاکستان نے اعتماد سازی کیلئے متعدد گرفتار افراد کو بھی رہا کیا۔اس تمام پراسیس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جو عناصرہتھیار رکھ کر جنگ ترک کرتے ہیں ان کو راستہ دیا جائے اور موجودہ حالات کے تناظر میں داعش کے بڑھتے خطرے اور ممکنہ عالمی پراکسیز کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے۔داعش بڑے چیلنج کی شکل اختیار کر گئی ہے اس لیے فریقین نے اس سے نمٹنے پر توجہ دیکر مذکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے پر توجہ دی۔ اگرچہ پاکستان کی بعض طالبان مخالف پارٹیاں اور لبرل حلقے اس عمل کی مخالفت کررہے ہیں.
تاہم موجودہ پیچیدہ صورتحال میں اسے ایک اچھا آپشن قرار دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی مثال دی جاسکتی ہے جو کہ اس عمل کی مخالفت کر تی رہی ہیں تاہم تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ ان پارٹیوں نے ماضی میں ایسا ہی ایک معاہدہ کیا ہوا تھا جس کو سوات معاہدے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان ایک مستحکم افغانستان کا نہ صرف زبردست حامی ہے بلکہ بعض تحفظات کے باوجود افغان حکومت کے ساتھ تعاون بھی کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان کے بقول پاکستان افغان جنگ سے براہ راست متاثر ہوتا آ یا ہے اور یہ کہ پڑوسیوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان دوحا کے اس معاہدے کے نتیجے میں برسر اقتدار ہیں جو کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان سے کیا اس لئے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کوششوں کو سپورٹ کیا ہے اور اپنی بساط سے بڑھ کر یہاں پر امن و خوشحالی کیلئے کوششیں کی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 35 فی صد اضافہ ہوا جن میں داعش کے حملے بھی شامل ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ کوشش کے اس حوالے سے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں کہ پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا ہے اور افغان حکومت پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو بھی لازمی قرار دے رہی ہے اور اگر بعض شرائط پر افغان حکومت کی گارنٹی کے ہوتے ہوئے مذاکراتی عمل آگے بڑھتا ہے تو اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا اور پاکستان کے قبائلی اور سرحدی علاقے بھی محفوظ ہوجایں گے۔ ہر جنگ کا حل ہمیشہ مذاکرات ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے اور اس مقصد کیلئے کچھ لو اور کچھ دو کا فارمولا اپنایا جاتا ہے اس لیے حالیہ کوشش اور پراسیس کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے اور حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کہاں جا سکتا ہے کہ اس وقت مذاکراتی عمل کامیاب ہونے کے امکانات کہیں زیادہ روشن ہیں۔