سابق وزیراعظم عمران خان نے لانگ مارچ کی کال دی ہے جو کہ ان کا سیاسی اور جمہوری حق ہے تاہم شرط یہ ہے کہ اس احتجاج کے دوران ریاستی قوانین اور عام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ دوسری طرف حکومت بھی کوئی ایسی حرکت نہ کرے کہ جس سے کشیدگی پیدا ہو اور خدانخواستہ تصادم کی نوبت آ جائے۔اس سے قبل جمعیت علما اسلام اور پیپلز پارٹی نے عمران حکومت کے دوران پرامن مارچ اور احتجاجی مظاہرے کئے مگر سابق حکومت نے ان کو کچھ نہیں کہا جس کی تعریف کی گئی2014 کے دوران اسی تحریک انصاف نے 126 دن کا لمبا دھرنا دیا تو محض دو بار اس وقت کی لیگی حکومت نے پولیس کے ذریعے چھوٹی موٹی کاروائی کی اور جناب عمران خان کو اپنے مطالبات تسلیم کرائے بغیر دھرنا ختم کرنا پڑا۔
اب کے بار بوجوہ تلخی کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے اس لیے سنجیدہ حلقے ممکنہ نتائج سے کافی پریشان ہیں۔معاشرے میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور مفاہمت کی بات کوئی کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ معاشرہ دو انتہاؤں پر کھڑا نظر آ رہا ہے جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے فیک نیوز کی بھرمار ہے جس نے کشیدگی کو اور بڑھا دیا ہے۔اس کی تازہ مثال انسپکٹر جنرل پولیس کے پی سے منسوب وہ بیان ہے جس میں کہا گیا کہ راولپنڈی اسلام آباد سے ان کو ہدایت ملی ہے کہ عمران خان صاحب کے جلوس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جائے۔معظم جاہ نے اس کی بروقت تردید کی تاہم اس دعوے کے ذریعے بدگمانی پیدا کرنے کی مذموم کوشش تو بہرحال کی گئی۔
اسی طرح منگل کی رات پنجاب میں پولیس کی کاروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس سے پورے ملک میں بے چینی پھیل گئی اور لوگ خوفزدہ ہوگئے۔اس قسم کی کاروائیوں کو ایسے حالات میں معمول سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہئے۔اسی طرح پورے ملک میں شاہ محمود قریشی کی ایک کال کو متنازعہ بناکر غیر ضروری بحث اور بدگمانی کا ذریعہ بنایا گیا اور اس کال کی مفروضوں کی بنیاد پر اپنے اپنے انداز میں تشریح کی گئی۔
اس تمام صورتحال میں تحریک انصاف اور حکومت دونوں کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں نے اس کے باوجود غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اپنایا، باجود اس کے کہ حکومت نے مارچ کی اجازت دے رکھی تھی اور عمران خان بار بار یہ اعلان کررہے تھے کہ ان کا مارچ یا احتجاج پرامن ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہر پارٹی اپنے عہدیداروں اور کارکنوں کو ایک ڈسپلن کا پابند بنا کرچند ضوابط وضع کرے‘اس کے علاوہ اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کی بے لگام آزادی کو بھی چند شرائط سے مشروط کیا جائے کیونکہ کچھ عرصہ سے جاری سیاسی کلچر کی آڑ میں ریاست کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے۔
سیاست سب کی الگ ہوتی ہے مگر ریاست سب کی ایک ہی ہے اس لیے سیاسی جھگڑوں سے ریاست کو دور رکھنے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ قومی قیادت لانگ مارچ کو ایک صحت مند جمہوری عمل سمجھ کر تصادم کی نوبت نہیں آنے دے گی۔جن سے معاملات سلجھنے کے بجائے الجھنے کا اندیشہ ہو اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔