درجہ بندی کی دوڑ

جامعات کی رینکنگ یا درجہ بندی کی دوڑ میں پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا کی وہ یونیورسٹیاں بھی نہ صرف شامل ہوئیں بلکہ صف اول دوم یا کم از کم سوئم میں بھی کھڑی ہوگئیں جن کی کارکردگی ہر لحاظ سے قابل ذکر تسلیم نہیں کی جا سکتی۔اس حوالے سے کسی کا نام لینا یا کسی اور طریق سے نشاندہی ضروری نہیں سمجھتا درحقیقت جامعات کی کارکردگی کی جانچ رپورٹیں جن ایجنسیوں کی طرف سے جاری ہوتی ہیں ایک تو ان میں اکثریت غیر مقامی یعنی غیر ملکی ہوتی ہیں جبکہ ساتھ ہی اگر مکمل غیر جانبداری سے ان رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ یہ سو فیصد یا پچاس فیصد حقائق پر مبنی نہیں ہوتیں ایک ہی سال یا سیشن کے دوران ایک ایجنسی کی رپورٹ میں غیر متوقع طورپر ایک یونیورسٹی ملکی سطح پر جبکہ دوسری اور تیسری  صوبائی سطح پر درجہ اول دوم اور سوئم کی حامل قرار دی جاتی ہے جبکہ اسکے فوری بعد دوسری ایجنسی کی رینکنگ سروے جانچ رپورٹ میں یہ اعزاز اسی ملک اور اسی صوبے کی دوسری جامعات کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے بندہ حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ آخر اس درجہ بندی میں ملک کی قدیم یعنی70 سے بھی کچھ زیادہ پرانی یونیورسٹی  یعنی جامعہ پشاور کیوں شامل نہیں؟
 ابھی گزشتہ سال کے اواخر اور سال رواں کے اوائل میں خیبرپختونخوا کی نئی نویلی جامعات کے سرپر درجہ اوّل کا تاج سجایا گیا یہ بات اگر ان لوگوں کیلئے باعث حیرت نہ ہو جو غیر ملکی اور ملکی رینکنگ ایجنسیوں کے اس عمل کے پراسس اورمضمرات سے واقف ہیں لیکن ان لوگوں کیلئے ضرور  باعث حیرت امر ہوگا جو اس سے ناواقف ہوں بلاشبہ کہ جامعہ پشاور کے موجودہ وائس چانسلر یونیورسٹی کا درجہ بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں اور موصوف کی کوشش ہے کہ اس مشن میں پوری یونیورسٹی بالخصوص اساتذہ کو بھی شریک کیا جائے مگر ان کوششوں کے نتائج کا ابھی انتظار ہے البتہ یہ ضرورہوا ہے کہ جامعہ کے کوالٹی انہاسنمنٹ سیل نے جسے سیل کے موجودہ نگران ڈائرکٹریٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں حال ہی میں اپنی ایک جانچ رپورٹ میں یہ کہتے ہوئے جامعہ پشاور کو خیبرپختونخوا کی درجہ اول درسگاہ کا اعزاز بخشا کہ سیل نے رینکنگ کی برطانوی ایجنسی ٹائم ہائیر ایجوکیشن کی جانچ رپورٹ کی تفصیلی جائزے کے بعد یہ اخذ کیا ہے کہ پشاور یونیورسٹی صوبے کی درجہ اوّل جامعہ ہے یا یہ کہ مذکورہ رپورٹ میں درجہ اوّل کا اعزاز پشاور یونیورسٹی کے نام ہے نہ کہ کسی دوسری یونیورسٹی کو دیا گیا ہے۔
 بہرکیف یہ کوئی انہونی یا اچھنبے والی بات نہیں ممکن ہے کہ بہت جلد ایک اور رینکنگ ایجنسی کی رپورٹ میں یہ درجہ ایک ایسی یونیورسٹی کے نام نکل آئے جس کی بلوغت کیلئے ابھی کافی عرصہ درکار ہوگا میں نہیں سمجھتا بلکہ بہت سارے لوگوں کیلئے یہ امر غور طلب ہوگا کہ جامعات کی رینکنگ میں درجہ اول دوم اور دوئم قرار دینے کیلئے جس معیار کا تعین لازمی ہے آیا ہماری بالخصوص صوبے کی یونیورسٹیاں جن میں لگ بھگ ڈیڑھ درجن کے قریب نئی یونیورسٹیاں یا اسکے کیمپس بھی شامل ہیں اور یہ تعداد  مزید بڑھ رہی ہے رینکنگ کیلئے لازمی معیار پر پوری اترتی ہیں؟ یعنی یہ کہ یونیورسٹی کا حدود اربعہ یا رقبہ کتنا ہے؟ اس میں سبزہ زاروں اور ہریالی کی حالت کیا ہے طلباء کی تعداد کتنی ہے؟ کتنے ڈگری پروگرامات چل رہے ہیں فیکلٹی میں پی ایچ ڈی کی تعداد کتنی ہے؟ سال یا سیشن کے دوران کتنے ریسرچ پیپرز قومی اور بین الاقوامی جرنلر میں شائع ہو رہے ہیں سپورٹس اور دوسری ہم نصابی سرگرمیاں کس حال میں ہیں؟ 
جامعہ کے کتنے مستحق طلباء تعلیمی وظائف سے مستفید ہو رہے ہیں مالیات اور امتحانات کے انتظام و انصرام کا معیار کیا ہے؟ بین الجامعاتی صوبائی قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے سیمیناروں‘ ورکشاپس اور کانفرنسز کے اہتمام میں جامعہ کہاں کھڑی ہے؟ جبکہ سال یا سیشن کے دوران جامعہ کے کتنے اساتذہ اور ریسرچ سکالرز صوبائی قومی اور بین الاقوامی کانفرنسز میں اپنے ریسرچ پیپرز پیش کر رہے ہیں؟ یہ اور اس طرح کی دوسری کئی شرائط ہیں جنہیں پوری کرنا درجہ بندی میں پوزیشن ہولڈر قرار دیئے جانے کیلئے لازمی ہوتی ہیں لہٰذا اب ہماری جامعات خود اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اور خود ہی اپنا محاسبہ کرلیں کہ وہ کونسے درجے کی حقدار ہیں؟ بصورت دیگر اس رینکنگ اور اس میں ہونے والی درجہ بندی کی بندربانٹ کی اس سے زیادہ کوئی حقیقت کوئی اہمیت نہیں جو انتخابی مہم کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت کے بارے میں سروے رپورٹوں کی ہوتی ہے۔