موجودہ حکومت کے چیلنجز

وزیراعظم شہباز شریف نے مانسہرہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صوبہ خیبر پختون خوا کو بھی پنجاب کی طرح ترقی سے ہمکنار کریں گے اور یہ کہ صوبائی حکومت مزاحمتی سیاست اور رویہ کی بجائے صوبہ کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرے۔ اسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے سابق وزیراعظم عمران خان صاحب کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ وہ کے پی حکومت کو وفاق کے خلاف استعمال کررہے ہیں اور مارچ میں بھی اس کے وسائل استعمال کیے گئے‘دوسری طرف جناب عمران خان نے اسی روز چارسدہ میں ورکرز کنونشن سے اپنے خطاب اور اس قبل ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے اور یہ کہ وہ اب مزید تیاری کر کے اسلام آباد کی جانب ایک اور مارچ کریں گے۔
عمران خان نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا فعال کردار ادا کرے اور عوام کو ان کے جمہوری حقوق دلانے کی عملی کوشش کرے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو متعدد سنگین مسائل کے علاوہ سیاسی عدم استحکام اور بے چینی کی صورتحال کا سامنا ہے اور عام لوگ اس صورتحال کو بہت تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان حالات سے ملک کو نکالنے کی بنیادی ذمہ داری ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں ہی پر عائد ہوتی ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی لازمی ہے کہ قائدین بھی کوئی ایسا راستہ اختیار نہ کریں جس سے ملک اور عوام کے اجتماعی مفاد کو خطرہ لاحق ہو۔
احتجاج کرنا اور پرامن تحریک چلانا دوسروں کے علاوہ تحریک انصاف کا بھی ایک قانونی حق بنتا ہے تاہم اس حق کے استعمال کے دوران وسیع تر قومی مفاد اور ملک کی ساکھ کا تحفظ کرنا بھی ان سمیت پوری قومی قیادت کی بنیادی ذمہ داریوں میں آتا ہے جس کا سب کو ادراک ہونا چاہئے کیونکہ ہم مزید کسی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔دوسری جانب حکومتی اتحاد کو اب گورننس کے معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور ماضی کی غلطیوں اور تلخ واقعات سے سبق حاصل کر کے ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل بھی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ پاکستانی معاشرہ بوجوہ بہت تقسیم ہوچکا ہے اور ہم ایک ناراض نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
جہاں تک خیبر پختونخوا کے مسائل کا تعلق ہے اس پر غیرمعمولی توجہ کی ضرورت ہے۔ایک دوسرا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مرکز اور صوبے کے تعلقات سیاسی کشیدگی کے باعث متوازن یا مثالی نہیں ہیں جس کا نقصان ظاہر ہے کہ صوبے ہی کو اٹھانا پڑے گا اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ فریقین اس مد میں وسیع نظری کا مظاہرہ کرکے پختون خوا کی تعمیر و ترقی کو ممکن بنائیں۔اس وقت حکومتی اتحاد کے سربراہان کو اے این پی اور قومی وطن پارٹی کو حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بنانے پر بھی سنجیدہ مشاورت کرنی چاہئے کیونکہ ایسا ہونے سے اتحاد مضبوط ہوگا اور جب یہ پارٹیاں سٹیک ہولڈر بن کر اپنا کردار ادا کریں گی تو اس کے نہ صرف پختونخوا بلکہ وفاق، بلوچستان اور سندھ کی سطح پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔