رہی سہی کسر

مختلف حلقوں اور ذرائع سے یہ ناگوار خبر سننے میں آئی ہے کہ تعلیم کو مزید بربادی سے ہمکنار کرنے میں اگر کوئی کسر باقی ہو تو وہ بھی بہت جلد پوری ہو جائے گی اگرچہ حکومت کے بعض حلقے اور منصوبہ بندی کے وزیر نے ان خدشات کو بے جا اور قبل از وقت قرار دیا ہے لیکن اندازتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے ایک مراسلے کے ذریعے ملک بھر کی جامعات کو مستقبل قریب میں مالی ابتری یعنی مزید برا وقت آنے سے خبردار کر دیا ہے اس طرح میڈیا کی بعض اطلاعات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تعلیمی کمیشن نے جامعات یا اعلیٰ تعلیمی بجٹ پر کٹ لگانے کی ابتداء کر دی ہے۔
 اب اس حقیقت کو اگر کوئی ہزار بار بھی مسترد کرکے بے جا قرار دے۔ تب بھی حقیقت نہیں بدلے گی کہ ہمارے ہاں جو طبقہ اقتدار میں آتا ہے اور جو اقتدار سے باہر اپنی باری کے لئے بے تاب رہتا ہے تعلیم‘ صحت یعنی علاج اور روزگار ان کے مسائل میں شامل نہیں اگر شامل ہوتے تو کروڑوں لوگ کیونکر بے روزگار پھرتے؟ اور نادار مریض دوا کی جگہ صرف دعا پر کیونکر اکتفاء کرکے اذیت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے؟ تعلیم اگر اس طبقے کا مسئلہ ہوتا تو دو سالہ وبائی حالت میں تعلیم کی جو تباہی ہوئی اس کے اثرات سے تعلیم کو نکالنے کے لئے ازالے کے طور پر تعلیم کو بھی کوئی نہ کوئی پیکج مل جاتا مگر جو حقیقت ہے وہ اٹل ہے اور وہ یہ کہ تعلیم ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔
 اب سال کے ایک ایسے وقت میں جبکہ سرکاری جامعات مالی سال 2022-23 کی بجٹ سازی میں لگی ہوئی ہیں اسلام آباد سے بجٹ کٹوتی جیسی تلخ اور ناگوار خبروں کا آنا یقیناً یونیورسٹیوں کے لئے ایک دھچکے بلکہ صدمے سے کم نہیں ہوں گی مثال کے طور پر ملک کی قدیم درسگاہ جامعہ پشاور نے آئندہ مالی سال کے لئے جو بجٹ تیار کر لیا ہے اس کا کل حجم4 ارب98 کروڑ روپے ہے اس میں یونیورسٹی نے اپنے ذرائع اور وسائل سے آمدنی کا جو تخمینہ پیش کیا ہے وہ 4 ارب72 کروڑ ہے۔
 اس صورت میں تو حالت گھمبیر بالکل بھی نظر نہیں آتی کیونکہ محض 12کروڑ خسارہ رہ جاتا ہے مگر یونیورسٹی نے اس میزانیہ میں 2 ارب روپے وفاقی حکومت سے بذریعہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور 45 کروڑ صوبائی حکومت سے ملنے کی جو توقعات شامل کی ہیں اگر وہ برعکس ثابت ہوئیں یعنی پوری نہ ہوئیں تو پھر کیا ہو گا؟ کیونکہ خدشہ تو یہ ہے کہ حکومت جامعات کے بجٹ پر کٹ لگا کر نصف کر رہی ہے اب اگر 30 فیصد کٹ بھی لگ جائے تو جامعہ پشاور کا12 کروڑ روپے کا خسارہ کہاں تک پہنچے گا؟
 باقی رہی صوبائی حکومت کی گرانٹ تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال اور سال رواں میں صوبے کی جامعات کو گرانٹ فراہم کرنے کے جواعلان کئے ہیں جامعہ پشاور سمیت صوبے کی پرانی جامعات کے مطابق تاحال انہیں کوئی پیسہ ٹکہ نہیں ملا‘ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے آیا یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مالی سال 2022-23 کے بجٹ میں جامعہ پشاور کو صوبائی حکومت کی طرف سے 45 کروڑ مل جائیں گے؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر 2 ارب45 کروڑ  روپے کی تنخواہیں اور ایک ارب روپے پنشن کیسے اور کہاں سے ادا ہو گی؟ 
جامعہ پشاور والے تو اس تلخ حقیقت پر بھی سیخ پا ہیں کہ یونیورسٹی کو ایک ارب روپے سالانہ بجٹ خسارے سے نکالنے کے لئے حکومت نے 80 کروڑ روپے کی قسط وار فراہمی کا جو وعدہ کیا تھا اس میں بھی نصف پر خاموشی اختیار کی گئی‘میرے نزدیک تو تعلیم کو مکمل طور پر بربادی سے ہمکنار کرنے کیلئے اب ایک آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور یہ کہ تعلیم‘ صحت اور روزگار ریاست کے ذمے عوام کے بنیادی آئینی حقوق نہیں ہیں تاکہ رہی سہی کسر پوری ہو جائے ویسے بھی تعلیم اب غریب اور متوسط طبقے کے بس کی بات نہیں رہی آیا اس امر کو جھٹلایا یا چھپایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران تعلیم یافتہ نوجوانوں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں کروڑوں کا اضافہ ہوا۔