غرباء و مساکین کے خالی ہاتھ

پاکستان کے غرباء و مساکین نئے پاکستان میں بھی خوار رہے جبکہ پرانے پاکستان کے لوٹ آنے پر بھی ان بیچاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا‘ نئے وفاقی بجٹ میں ایک نئی روایت یہ قائم کی گئی کہ بیمار و لاچار اور عمر رسیدہ ریٹائرڈ ملازمین کے حصے کو آدھا کرکے حاضر سروس کی تنخواہوں میں روایت کے برعکس10 فیصد کی بجائے15 فیصد اضافہ کیاگیا اب حکومتی یا برسر اقتدار فریق اپنے بجٹ کو متوازن تو کیا فلاحی بھی قرار دے رہا ہے جبکہ حزب مخالف پاکستانی اقتداری سیاست اپنی قدیم روایت کی پاسداری کرتے ہوئے بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھند کے نام سے یاد کرتاہے‘ حزب اقتدار فریق کے پارلیمانی لیڈر میثاق معیشت پر زور دینے کیساتھ ساتھ یہ بات بھی دھرا رہا ہے کہ معاشی طور پر موجودہ کٹھن حالت میں کفایت شعاری اور قربانی کی ضرورت ہے‘ اب اگر غرباء و مساکین کے طبقے سے کوئی اٹھ کران سے سوال کر دے کہ کفایت شعاری اور قربانی میں صاحب اقتدار اور اقتدار کی باری کیلئے بے چین فریق کا کیا اور کتنا حصہ ہو گا؟ تو غریب ملک کے سرمایہ دار لیڈر کیا جواب دیں گے؟ ایسے میں تعلیم کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ تو کیا بلکہ یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ کم از کم جامعات کا چلنا تو مشکل ہو جائے گا کیونکہ موجودہ پرانے پاکستان سے قبل سال2018 تک والے پرانے پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی بجٹ لگ بھگ 80 ارب کے قریب تھا لیکن تبدیلی والے نئے پاکستان میں اسے پہلے شب خون میں 43 ارب تک نیچے گرا دیا گیا اور بعد ازاں تھوڑا تھوڑا اضافہ کرکے 65 ارب تک پہنچا دیا گیا۔
 دوسری جانب ہر سال ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے اور مہنگائی یعنی دوسرے اخراجات میں 100 فیصد سے لیکر کئی سو فیصد اضافہ سامنے آتا رہا اور یوں کم ازکم پرانی یونیورسٹیوں کا بجٹ خسارہ لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں تک جاپہنچا اب یہ المیہ دیکھئے کہ موجودہ حکومت نے اضافے کی بجائے تعلیمی بجٹ کو نئے پاکستان کی حد پر چھوڑ دیا یعنی محض65 ارب روپے اب اگر کوئی ڈالر کے حساب سے اس بجٹ کا حساب کتاب کرلے تو واضح ہو جائے گا کہ تعلیمی بجٹ در حقیقت65 ارب نہیں بلکہ لاکھوں میں یا زیادہ سے زیادہ کروڑوں میں ہو گا کیونکہ ہمارے100 روپے تو اب محض10 روپے کے برابر ہو گئے ہیں۔دوسرا خدشہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ حکومت نے تو تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا محض اعلان کر دیا لیکن ادائیگی کے لئے جامعات کو حسب سابق اس بار بھی گرانٹ نہیں ملے گی اس کی ایک واضح مثال بلکہ ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ بجٹ اور اس کے بعد یونیورسٹیوں کے لئے تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے اور گرانٹ کی فراہمی کے جو اعلانات ہوئے تھے وہ آج تک محض اعلانات ہی رہے ہیں۔
 ویسے تو ملک بھر کی ڈیڑھ سو سے زائد یونیورسٹیوں کا ایک کھرب سے بھی چلنا مشکل ہے تاہم انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی بجٹ کم از کم ایک کھرب تک بڑھا دیا جائے بصورت دیگر ملازمین احتجاج پر ہوں گے اور بے اختیار اور لا چار انتظامیہ گرانٹ کے لئے حکومت کی جانب تکتی رہے گی حالات کا تقاضا اور حقیقت تو یہ ہے کہ معاشی ابتری میں کفایت شعاری اور قربانی کا بوجھ تو ملا کر اٹھانا چاہئے تھا‘ میں محنت مزدوری اور مشقت کی بات نہیں کر رہا لیکن وزارت تو بلا کسی معاوضہ کے رضا کارانہ طور پر کی جا سکتی ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے مراعات یافتہ صاحب اختیار طبقے کے ہاتھوں پاکستان جس قدر مالی ابتری اور معاشی انحطاط سے دو چار ہوا ہے ایسے میں اراکین پارلیمنٹ اور وزراء اور مشاورین صاحبان کفایت شعاری اورقربانی میں کتنا حصہ ڈالتے ہیں؟ کیونکہ ان کو زیادہ مراعات اور سہولیات حاصل ہیں اس لئے کفایت شعاری کامظاہرہ بھی سب سے پہلے ان ہی کو کرنا چاہئے تاکہ بہترین مثال قائم ہو۔ اگرچہ بیرونی سودی قرضوں میں 100 فیصد اضافے اور غریبوں کی حالت زار کا سلسلہ گزشتہ کئی سال سے چلا آ رہا ہے تاہم موجودہ حکومت میں مہنگائی کا گراف کچھ زیادہ ہی اوپر کی طرف گیا ہے۔