تعلیم و تربیت کو نظر انداز کرکے کسمپرسی اور انحطاط کی حالت سے دوچار کرنا ہمارا ایک قومی المیہ ہے دنیا کی جتنی اقوام ترقی‘ استحکام اور یگانگت کی منازل طے کرچکی ہیں‘ اس جدوجہد میں تعلیم و تربیت کا کردار ہمیشہ سے کلیدی رہا ہے المیہ دیکھئے کہ روپے کی قدر جس تیزی سے کمی اور مہنگائی میں برق رفتاری کیساتھ اضافہ ہو رہا ہے ہمارا تعلیمی بجٹ اس حساب سے بڑھنے کی بجائے سکڑ کر برائے نام رہ جاتا ہے تعلیمی اداروں کو جو پیسہ ریاست کی طرف سے ملتا رہا اس میں ایک خاص حصہ طلباء کی تربیت یعنی ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے ان کی کردار سازی کیلئے مختص ہوتا رہا جو کہ اب نہیں رہا کیونکہ جب جامعات اپنے ملازمین کو تنخواہوں‘ الاؤنسز اور پنشن کی ادائیگی میں خسارے کا رونا روتی رہیں تو مستحق طلباء کے وظائف اور ہم نصابی سرگرمیوں کے اہتمام کیلئے بجٹ میں حصہ مختص کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ ایسے میں اگر ہم نصابی سرگرمیوں کا کام طلباء پر چھوڑ دیا جائے جس طرح وہ یونین بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں پھر تو حالت یکسر تبدیل ہوگی اور طلباء کا ہر گروہ اپنی سیاسی جماعت اور اکابرین کا نظریاتی پیغام اور پروگرام کو لیکر آگے بڑھنے کی کوشش میں ہوگا‘صوبے کی پرانی جامعات مالی طور پر جس انحطاط پذیری سے گزر رہی ہیں اس میں ریاست کی طرف سے اعانت کی بجائے مالی پوزیشن اور اخراجات کا توازن مزید بگڑتا جارہا ہے مثال کے طورپر بجلی کے مسلسل طویل بریک ڈاؤن اور معمول کی آنکھ مچولی سے پانی کا ناپید ہونا‘ انٹرنیٹ سسٹم کامفلوج ہونا اور لوگوں کا تکالیف سے دوچار ہونا تو الگ بات مگر جامعہ پشاور جیسی بڑی یونیورسٹیوں میں بجلی کی ضرورت پوری کرنے اور نظام کو مکمل طور پر مفلوج ہونے سے بچانے کیلئے کئی کئی گھنٹے ہیوی جنریٹر چلنے سے فیول چارجز میں ماہانہ لاکھوں روپے کا جو اضافہ ہو رہا ہے وہ جامعات کی مالی ابتری میں رہی سہی کسر پورا کر رہا ہے ایسے میں طلباء کی تربیت کا خانہ یقینا خالی رہے گا اگر صورتحال اسی نہج پر برقرار رہی تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوگی کہ عمر رسیدہ بیمار و لاچار ریٹائرڈ ملازمین دھرنا دیکر بیٹھ جائیں اور حاضر سروس اپنی تنخواہوں اور الاؤنسز کیلئے سڑکوں پر گشت کی راہ اپنالیں گے اگر حالات کی ابتری اس انتہا تک پہنچ جائے تو ممکن ہے کہ یہ نظریہ بھی سامنے آجائے کہ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں کا پبلک سیکٹر کے اداروں کے طور پر چلنا مشکل ہو چکا ہے لہٰذا ان کی نجکاری کی جائے اگر ایسا ہو جائے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ملک کے ارباب اختیار آکر بیٹھ جائیں تو ان کا پہلا کام تو ڈاؤن سائزنگ یعنی چھانٹی ہوگا اور دوسرا تنخواہوں کو قدرے بڑھا کر پنشن اور مراعات یا الاؤنسز سے ملازمین کو محروم کردینگے جبکہ تیسرا بڑا اور خطرناک قدم یہ ہوگا کہ پاکستان کے تعلیمی نظام اور نصاب کو کچھ ایسے خطوط پر استوار کرنے کی شعوری کوشش کرینگے جوقومی روایات و اقدار سے متصادم ہو ایسی صورت میں بلاشبہ تعلیم کا مقصد ہی درمیان سے نکل جائیگا یعنی یہ ممکن ہی نہ ہوگا کہ ہمارے بچے اور نوجوان اس خطوط پر تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں جس کی بنیادپر وہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے باسی کہلا سکیں اور وہ اپنی دھرتی کے سپوت کے طور پر آگے بڑھیں پاکستان اور یہاں کے لوگوں سے احساس کیساتھ وابستگی رکھنے والے سیاسی اکابرین‘ ماہرین تعلیم‘ جامعات کی انتظامیہ‘ معاون ملازمین اور طلباء اس بات کو ذہن نشین کرلیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے بلاشبہ کہ پاکستان کی خودمختاری ترقی اور اتحاد جیسے مقاصد کے حصول کا تقاضا ہے کہ قومی تعمیر کیلئے تعلیم اور تربیت کو دوسری تمام ضروریات اور اخراجات پر ترجیح دی جائے بصورت دیگر ایک آزاد‘ خودمختار‘ آسودہ حال اور خود کفیل قوم کی حیثیت سے روئے زمین پر ہمارے لئے زندہ رہنا ناممکن ہو جائے گا یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پشاور یونیورسٹی کیمپس میں ٹک ٹاک کی جو وباء وارد ہوئی ہے اور انتظامیہ اور پولیس تماشائی بنی بیٹھی ہے اگر اس بے راہ روی کو نہ روکا گیا تو جامعات کے نوجوان طلباء و طالبات کی تعلیم و تربیت کردار سازی اور اخلاقیات کا جنازہ نکلنے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا اب اگر اسے یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی پولیس کی مجرمانہ غفلت نہ کہیں تو دوسرا مناسب اور موزوں نام کیا ہو سکتا ہے؟
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے