خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے20سالہ طالب علم احمد نواز ایک بار پھر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اب کے بار وہ اس وجہ سے عالمی سطح پر شہرت حاصل کرچکے ہیں کہ ان کو دنیا کی مشہور ترین علمی درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی کہ مشہور زمانہ یونین کے کم عمر ترین صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔انہوں نے20 کی عمر میں بہت سی مشکلات کے باوجود 523 ووٹ لیکر یہ اعزاز حاصل کیا۔ ان کے دو مدقابل امیدواروں نے بالترتیب 411 اور 270 ووٹ لیکر ان سے شکست کھائی۔احمد نواز چند برس قبل اس وقت میڈیا اور عوام میں زیرِ بحث آئے تھے جب وہ سانحہ آرمی پبلک سکول میں متعدد گولیاں لگنے کے باوجود بچ گئے تاہم درجنوں دوسرے معصوم بچوں کے ساتھ ان کے بھائی حارث نواز شہید ہوئے‘ احمد نواز کو طبی پیچیدگیوں کے باعث برطانیہ بھیجا گیاجہاں 2 کے دوران انکے 14 آپریشن کرانے پڑے اور وہ بعد میں شاندار تعلیمی ریکارڈ کے باعث آکسفورڈ یونیورسٹی تک پہنچ گئے جہاں آج کل وہ فلاسفی اور تھیالوجی کے مشکل مضامین پڑھ رہے ہیں جبکہ ان کو کاؤنٹر ایکسٹرم ازم پر بھی عبور حاصل ہے اور وہ متعدد معتبر عالمی اداروں کے ساتھ اس سبجیکٹ پر کام بھی کرتے آرہے ہیں۔
اپنے چھوٹے بھائی حارث نواز کی شہادت اور خود زخمی ہونے کی تلخ یادوں نے اس باہمت بچے کو ذہنی طور پر مفلوج یا مایوس ہونے کی بجائے مذید پرعزم بنایا‘ انہوں نے مختلف سکالر شپ لیکر اپنے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھایا اور ان کے اس عزم اور ذہانت نے نہ صرف ان کو آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے ادارے کا قابل ذکر سٹوڈنٹ بنایا بلکہ آج وہ اس تاریخی ادارے کے دو سو سالہ تاریخ کے دوران وہ تیسرے پاکستانی کا اعزاز حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں جو کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے‘ برسوں قبل شہید بینظیر بھٹو صاحبہ بھی یہ اعزاز حاصل کرچکی تھی جسکے باعث ان کے والد نے انہیں سیاست میں لانے کے عملی اقدامات کئے اور بعد میں ان کو ایک عالمی سطح کی لیڈر بننے کے علاوہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا‘احمد نواز اور شہید بے نظیر بھٹو میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے صدور بننے کے اعزاز حاصل کرنے کے علاوہ ایک اور قدر یہ مشترک ہے کہ دونوں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہوئے اور دونوں کے خاندان اس لہر سے بے حد متاثر ہوئے‘ احمد نواز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا ہے کہ یونین کے الیکشن کی تاریخ میں ان کی پوری کابینہ کامیاب ہوگئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ عالمی میڈیا اور لیڈر شپ نے اس ریزلٹ کو احمد نواز کی لیڈر شپ کوالٹی کا نام دیکر ان کو مبارکباد دی اور انکے انٹرویوز معتبر عالمی میڈیا کے زینت بنے۔
پاکستان میں اس کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا گیا‘ وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان سمیت اہم شخصیات نے ان کو مبارکباد پیش کی جبکہ برطانیہ کے وزیراعظم اور متعدد دوسرے عالمی لیڈران نے نہ صرف اس کامیابی کو رسمی طور پر بہت سراہا بلکہ احمد نواز کو اعلی ترین ایوانوں میں سربراہان نے ملاقات کیلئے مدعو بھی کیا‘احمد نواز کی یہ کامیابی ان والدین اور بچوں کیلئے ایک روشن مثال ہے جو کہ نامساعد حالات اور سانحات کے باوجود بامقصد اور کامیاب زندگی گزارنے کا عزم رکھتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو روشن راستے دکھانا چاہتے ہیں‘ ان کے ایک اور بھائی 14 سالہ عمر نواز فٹبال کے مشہور ترین کلب وولز پریمیر لیگ کے ٹاپ ٹین کھلاڑیوں میں شامل ہیں اور ماہرین فٹبال عمر نواز کو مستقبل کا کامیاب ترین کھلاڑی قرار دے رہے ہیں‘ان کے والد محمد نواز خان کے مطابق حارث کی شہادت، احمد کے نازک طبی حالت اور صبر آزما علاج سمیت متعدد دیگر نفسیاتی اور معاشی مسائل کے باوجود ان کی کوشش رہی کہ باقی بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کریں تاکہ سانحہ اے پی ایس کے متاثرین اور ایسے دیگر کو عملی طور پر یہ پیغام دیا جائے کہ ہم بحیثیت قوم ہر قسم کے حالات اور واقعات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور یہ کہ یہ مٹی اور اس کے بچے دونوں بہت زرخیز ہیں۔