خیبر پختونخوا کی سرکاری یونیورسٹیوں میں سے پشاور یونیورسٹی کیمپس کی چاروں جامعات کے ملازمین نے گزشتہ ہفتے فپواسا اور حاجی صلاح الدین کی آل یونیورسٹیز ایمپلائز فیڈریشن(نان ٹیچنگ) کی کال پر اسلامیہ کالج میں اکٹھے ہو کر اعلان کیا کہ اگر صوبائی حکومت اپنی پالیسی‘ اقدامات اور ملازمین کے منہ سے نوالہ چھیننے کے موجود طرزعمل سے باز نہ آئی تو وہ ازراہ مجبوری بنی گالہ کا رخ کرکے وہاں پر دھرنا دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے‘ ملازمین نے اسلام آباد کی بجائے بنی گالا کا انتخاب کیا اور یوں اس سے ملک کی سیاسی صورتحال اور انتظامی باگ ڈور کے خدوخال بھی نمایاں ہو گئے‘ سیخ پا ملازمین نے صوبائی اسمبلی یا گورنر ہاؤس کا انتخاب غالباً اس لئے نہیں کیا کہ وہاں پر جانے اور لاٹھیوں کا سامنا کرنے کے صفر نتائج ان کے سامنے ہیں۔
یہ لوگ گزشتہ کئی سال سے یعنی جس وقت سے یونیورسٹیوں کو ویسے خواہ مخواہ صوبوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے جامعات ملازمین مسلسل اضطراب بے چینی اور احتجاج کے دھرنے جیسے نت نئے طریقوں کو آزماتے ہوئے سیخ پا کی کیفیت تک پہنچ گئے ہیں ان لوگوں نے گزشتہ سال بھی شدید گرمی کے ہوتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے ٹیچرز کمیونٹی سنٹر سے صوبائی اسمبلی تک پیدل مارچ کیا تھا جو کہ کم از کم میرے نزدیک تو اس لئے بھی ناقابل فراموش واقعہ تھا کہ جامعہ پشاور کے اس وقت کے صدر پروفیسر قاضی فضل ناصر نے حق رہبری ادا کرتے ہوئے اسمبلی کی دہلیز پر اپنے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا تھا مگر ملازمین کی جھولی پھر بھی خالی رہی کیونکہ
کسی کے ایک آنسو پر ہزاروں دل تڑپتے ہیں
کسی کا عمر بھر رونا یونہی بے کار ہوتاہے
میرے لئے اس تذکرے میں عار کا کوئی پہلو نظر نہیں آرہا کہ یونیورسٹی ملازمین کو سیخ پا ہونے کی کیفیت تک پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی بجٹ اور ملازمین کو قانونی طور پر حاصل مراعات میں مسلسل کٹوتی ہے جو کہ غریب کلاس فور اور کلاس تھری تو کیا متوسط طبقے کے بس سے بھی باہر ہوگئی ہے۔سیخ پا ملازمین کی ایک اور مشترکہ احتجاجی جلسہ 5 جولائی کو بھی طلب کیا گیا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ کا لائحہ عمل اور اس پر صاحب اختیار فریق کا رد عمل کیا ہو گا؟ یہ لوگ بیورو کریسی اور وائس چانسلروں کے خلاف بھی احتجاج کر رہے ہیں مگر کہنے کی بات یہ ہے کہ ماڈل ایکٹ کے ہوتے ہوئے وائس چانسلرز صاحبان کیا کر سکتے ہیں؟ اور پھر حکومت کے لئے وائس چانسلروں کے انتخاب میں اتنی کانٹ چانٹ کی ضرورت ہی آخر کیا تھی؟ کہ وہ جا کر احتجاجی ملازمین کے صف میں کھڑے ہو کر ان کی آواز میں آواز ملائیں گے؟ ملازمین کا احتجاج ہے کہ ان کے میڈیکل الاؤنس اور ہاؤس ریکوزیشن اور سبسڈی سمیت ان کے بچوں کی فری تعلیم کا حق چھین لیاگیا ہے مطلب یہ کہ انہیں دیوار سے لگا دیا گیاہے لہٰذا اب کوئی چارہ نہیں کہ وہ یونیورسٹی سے باہر نکل کر سڑکوں پر احتجاج کریں اور اس رد عمل میں ان کا بنی گالا تک پہنچنا بھی کوئی انہونی بات نہیں ہو گی۔
ویسے ان کے علم میں تو یہ بات ہو گی کہ سبسڈی نام کی تو ملک میں کوئی چیز باقی نہیں رہی ورنہ بجلی گیس اور تیل کی ہوشربا ناقابل برداشت قیمتوں کی چھری پر غریبوں کے ذبخ ہونے کا اہتمام کیونکر ہوتا؟ ممکن ہے کہ ملازمین اپنے ھلہ گلہ کے دوسرے راؤنڈز آزمانے کیساتھ ساتھ عدالت سے بھی رجوع کریں کیونکہ یہ مسئلہ اس لئے بھی جلد اور مستقل طور پر حل ہونیوالا نہیں کہ ملک مالیاتی بحران سے دو چار ہے اور اس بحرانی حالت میں باقی ماندہ تمام خرچے بلا روک ٹوک چل رہے ہیں البتہ تعلیم اور غریب کے لئے کفایت شعاری برداشت اورقربانی جیسی آزمائشوں کا کڑا وقت ہے لہذا غریب ملازمین کو حب الوطنی اور اپنے لیڈروں کی شان و شوکت کو دوام بخشنے کی خاطر قربانی کی مثال قائم کرنا ہو گی۔ اس ضمن میں ایک باعث حیرت بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ملازمین کے بقول جو ملازمین کرایہ کے گھر میں رہائش پذیر تھے ان سے ہاؤس ریکوزیشن الاؤنس واپس لیاگیا جبکہ اپنے گھر میں رہنے والوں کے لئے ہاؤس سبسڈی بحال رکھی گئی؟ لگتا ہے کہ پالیسی اصلاحات کے کرتا دھرتا میں ایسا کوئی شخص بھی شامل نہیں تھا جو کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہوں۔
میرے نزدیک تو اس ابتر حالت اور معاشی اونچ نیچ پر ساغر صدیقی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ سیخ پا ملازمین کیلئے یہ خبر کس قدر اطمنیان کا باعث ہو گی کہ پشاور یونیورسٹی انتظامیہ سے 250 ملین گرانٹ کی فراہمی کا ایک اور زبانی وعدہ کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ وعدوں میں سے ایک کے تحت قدرے گرانٹ ملتے ہی یونیورسٹی نے ملازمین کے گزشتہ ایک سال کے بقایا جات کی ادائیگی کی حامی بھر لی ہے‘ کہا جاتاہے کہ درجہ چہارم کو پورے بقایا جات جبکہ کلاس تھری اور ٹیچنگ سٹاف کو پانچ یا چھ مہینوں کی ادائیگی ہو گی‘ اس طرح20 فیصد ٹیچنگ الاؤنس بھی پائپ لائن میں پڑا ہوا ہے یوں اگر سینیٹ کے حالیہ بجٹ سیشن میں دیا گیا250 ملین کا وعدہ ایفا ہو جائے تو ممکن ہے کہ 15 فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس بھی بلا امتیاز سب کے ہاتھ لگ جائے‘ ایسے میں اگر بیورو کریسی اور پروچانسلر کا رویہ ملازمین کے لئے ناقابل قبول بھی ہو تو ہو سکتا ہے کہ قابل برداشت ہو جائے۔