تیسری دنیا کا ایک بڑا اور مستقل المیہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے قواعد و ضوابط کی اپنی من پسند تشریح کی جاتی ہے۔اکثر لوگ یا تو پروپیگنڈہ اور افواہوں کا شکار ہوتے ہیں یا اندھی تقلید میں حقائق کو مسخ کرکے اپنے طرز فکر کے عین مطابق واقعات اور نظریات کی تشریح کرتے ہیں پاکستان میں اظہار رائے کا کوئی پیمانہ اس کے باوجود عملی ہوتے نظر نہیں آتا کہ دستور میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ عوام تو کیا سیاست دان اور رائے عامہ ہموار کرنے والے حلقے بھی بنیادی انسانی حقوق اور ملکی قوانین کو پڑھنا یا سمجھنا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بسا اوقات محض مفروضوں اور خواہشات کی بنیاد پر معاملات چلائے جاتے ہیں۔ہر ملک میں اس کے معروضی حالات کے مطابق اظہار رائے کے معاملے پر بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے تاہم اس تمام بحث میں ایک مشترکہ ریاستی رویہ ہر جگہ پر یہ نظر آتا ہے کہ ریاست چند بنیادی حدود و قیود متعین کرتی ہے اور امریکہ، برطانیہ جیسے ممالک میں بھی بعض سخت قسم کی حدود وقیود موجود ہیں جن پر ہر حال میں عمل درآمد کرایا جاتا ہے۔پاکستان میں ہر قسم کے حقوق کا دائرہ اختیار اور دائرہ کار موجودہے۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ سیاسی دھند کے باعث بہت سی اچھی چیزیں بھی ہمیں نظر نہیں آتی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض حلقے بعض واقعات کو بنیاد بنا کر نہ صرف ہر مسئلے کی ذمہ داری ریاست پر ڈالتے رہتے ہیں بلکہ وہ فیک نیوز اور پروپیگنڈہ مشینری کا شکار ہو کر دوسروں کو گمراہ کرنے کی روش پر بھی چلتے دکھائی دیتے ہیں جوکہ غیر قانونی طرزِ عمل کے علاوہ ایک غیر اخلاقی کام بھی ہے۔سوشل میڈیا کو پاکستان میں محض پروپیگنڈہ اور الزامات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جس نے پورے معاشرے کو بدکلامی، کشیدگی اور تصادم کے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی ذہن سازی اور بنیادی اخلاقی تربیت کا کوئی نظام نہیں پایا جاتا نہ ہی اس بات کا کوئی اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے کہ شخصیت پرستی کی بجائے نظریات کو اُجاگر کیا جائے۔
اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست اور معاشرت کا وسیع مفہوم بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے اور سیاسی کشیدگی اب ہمارے روایتی خاندانی نظام پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ووٹ بہت کم لوگ پول کرتے ہیں مگر سیاسی اور ریاستی معاملات میں ہر کوئی ہر فن مولا بن کر دخل دینا لازمی سمجھتا ہے۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس صورت حال اور منفی رویوں کا ریاستی، سیاسی، صحافتی اور سماجی سطح پر سنجیدہ نوٹس لیکر بعض سخت شرائط کے ساتھ حدود وقیود کا ازسر نو تعین کیا جائے۔اظہار خیال اور اظہارِ رائے کی آڑ میں جاری کشیدگی کا راستہ روکنا سب کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے اس لیے متعلقہ ذمہ دار لوگوں اور اداروں کو اس صورت حال کے منفی نتائج کا ادراک کرتے ہوئے اہم اور فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔