13 جولائی 1931،جب 22 کشمیری نوجوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کرکے اذان مکمل کی

ہر سال 13 جولائی کو دنیا بھر کے کشمیری ان شہداء کی یاد میں یوم شہداء کشمیر مناتے ہیں  جنہوں نے ڈوگر کی طرف سے برسنے والی گولیوں کا راستہ اپنے سینے سے روکا لیکن اپنے عزم میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ 13 جولائی 1931 کشمیری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب 22 نہتے کشمیری ڈوگرہ راج کی سفاکی کا نشانہ بنے۔

88 سال پہلے بہنے والا کشمیریوں کا ناحق خون آج بھی تروتازہ ہے،حریت پسند جاں بازوں کی یاد میں دنیا بھر میں یوم شہدائے کشمیر منایا جارہا ہے اور حریت قیادت کی اپیل پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی ہے۔

13 جولائی 1931 کو سرینگر جیل کے باہر ڈوگرہ مہاراجہ کی افواج کی جانب سے 22 مظاہرین کو شہید کردیا گیا تھا جب ایک اذان کے 17 کلمات کو ادا کرنے کے لیے وادی کشمیر کے 22 جوان کھڑے ہو گئے تھے۔

سرینگر جیل کے باہر احتجاج کے دوران جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو ایک نوجوان اذان دینے کے لیے کھڑا ہوگیا جسے ڈوگرہ مہاراجہ کی افواج نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔

اس حملے کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں نے اذان پوری کرنے کی ٹھانی اور پہلے شہید کے بعد ہی دوسرا نوجوان آگے بڑھا اور بقیہ اذان دینے کی کوشش کی تو اُسے بھی شہید کردیا گیا۔

اس طرح 22 کشمیری نوجوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اذان مکمل کی۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یوم شہدائے کشمیر بھرپور طریقے سے منایا جا رہا ہے جس میں 13 جولائی 1931 کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔