ان سطور میں یہ بات اس سے قبل بھی کہی گئی ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد یونیورسٹیوں کی خودمختاری محض عیدین پر اپنی مرضی کی چھٹیوں تک محدود رہ گئی ہے۔ مگر یہ روایت بھی ٹوٹ گئی کیونکہ عید تعطیلات میں وفاق کی مخلوط حکومت اور صوبے کی حکومت نے ایکا کرکے محض پانچ چھٹیاں دے دیں۔ پشاور کی جامعات بالخصوص پشاور یونیورسٹی آخری دن تک صوبائی حکومت کے اعلان کی منتظر رہی کہ شاید صوبہ سیاسی اور انتظامی اختلاف کی طرح عید کی چھٹیوں میں بھی اپنی خود اختیاری اور مرضی کی ایک الگ شناخت برقرار رکھے اور جامعات کی 9 تعطیلات میں اضافہ کرکے یعنی10 چھٹیوں کا اہتمام کرکے بدھ‘ جمعرات اور جمعہ کو شامل کرکے ملازمین کے سیرسپاٹے ہوا خوری اور انٹرٹینمٹ کی راہ ہموار کر ے گا۔ مگر شومئی قسمت کہ ایسا نہیں ہو سکا اور یوں ایک پکی پرانی روایت ٹوٹ گئی‘ خیبر پختونخوا حکومت نے عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی یکجہتی کو ترجیح دی اب یونیورسٹی ملازمین تو پہلے سے سیخ پا ہیں بلکہ 20 جولائی کے بعد اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔
یہ بات 5 جولائی کو پشاور یونیورسٹی میں کیمپس کی چاروں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کے جزوی دھرنے سے ہونیوالی تقاریر سے بھی واضح ہے جس میں بعض نمائندوں نے بعض وائس چانسلروں کو مخاطب کرکے اپنی روایتی شعلہ بیانی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کام یعنی کچھ کرکے دکھانے اور روٹی روزی کیلئے اپنا خون پسینہ یکجا کرنے کی بجائے جو شیلی تقاریر‘ دھمکیوں اور گھیراؤ جلاؤ میں آگے نکل گئے ہیں ایسے میں ایک جانب جامعات کے ایڈمنسٹریٹو افسران کے صوبائی صدر فپواسا، نان ٹیچنگ فیڈریشن اور جامعات کی انٹرنل تنظیموں کے احتجاجی سٹیج پر آکر تقاریر میں بعض دوسرے مقررین کے انداز بیان کی پیروی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ سب سے بڑی اور قدیم جامعہ پشاور کے انتظامی آفیسرز ایسوسی ایشن وائس چانسلر کی حمایت میں پریس نوٹ جاری کر دیتی ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہعلی الصبح آ کر ملک بھر کے مروجہ روایتی قاعدے کے مطابق کیمپس میں چھڑکاؤ اور جھاڑو کے اہتمام کی بجائے دن آٹھ بجے اور اس کے بعد سڑکوں شعبہ جات اور دفاتر کے احاطوں میں جھاڑو دیتے ہوئے گرد و غبار کا ایسا طوفان بپا کر دیا جاتا ہے کہ لوگوں کیلئے سانس لینا محال ہو جاتا ہے اور اب تو اس پر مستزاد کہ اب توکوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں پڑے پلاسٹکی فضلہ جات کو آگ لگا کر ماحول کو اور بھی صحت دشمن بنادیا جاتا ہے۔، اسی طرح ٹریکٹر ٹرالی والے بھی ان سے کم واقع نہیں ہو رہے بلکہ وہ بھی آدھا گند ٹرالی میں ڈال کر آدھے کو سڑک پر پھینک کر چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ نہایت سختی‘ جواب طلبی اور کڑے احتساب کی کمی ہے جو کہ انتظامیہ سے پوری نہیں ہو رہی یونیورسٹی کیمپس بالخصوص پشاور یونیورسٹی میں پریشر ہارن‘ رکشہ سروس اور وہ بھی بالکل اکیڈمک ایریا روڈ نمبر2 پر ساتھ ہی جگہ جگہ پر سٹینڈ اور عین روڈ پر پارکنگ،ون ویلنگ،سکریچنگ،پریشر ہارن،تمام تدریسی شعبہ جات تک رکشوں پک اینڈ ڈراپ اور ٹیکسی گاڑیوں کی رسائی، سیاسی جماعتوں کی ٹوپیاں سجانے کے مظاہرے اور مارکیٹوں میں اپنی مرضی کی قیمتوں کے بعد جس چیز کی کمی تھی خیر سے وہ بھی بلاروک ٹوک کیمپس میں وارد ہوئی اور اب کچھ باہر کے اور کچھ اندر کے سر پھرے ٹک ٹاک کرکے ویڈیو وائرل کردیتے ہیں اور یوں جامعہ کی ساکھ کو زندہ درگور کرنے میں رہی سہی کسر پوری کر دیتے ہیں اس بے راہ روی کو جب تحریری اور زبانی طورپر انتظامی سربراہ کے نوٹس میں لایا گیا تو کسی معقول جواب کی بجائے کہا گیاکہ ہم اسے نہیں روک سکتے۔