قدرتی آفات اور سانحات پر سیاست

کراچی میں معمول سے اب کے بار 400 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جس نے پورے انتظامی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ نکاسی آب کی موجود کیپیسٹی کم پڑ گئی جس کا نتیجہ وہی نکلا جس کی توقع کی جا سکتی تھی، شہر کے اکثر علاقے نہ صرف بری طرح متاثر ہوگئے بلکہ صورتحال اتنی ابتر ہوئی کہ شہریوں کیلئے نکلنا مشکل ہوگیا، بجائے اس کے کہ مسئلے کے حل کیلئے حکومت سے تعاون کرنے کا راستہ اختیار کیا جاتا، مخالف سیاسی پارٹیوں نے اس کے باوجود اس ایشو پر سیاست شروع کر دی کہ ان میں سے اکثر کسی نہ کسی شکل میں کراچی سمیت ملک کے موجودہ حالات کی ذمہ دار رہی ہیں، میڈیا نے بھی ریٹنگز کی چکر میں خوف پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی حالانکہ عین انہی دنوں بلوچستان اور پختون خوا کو بھی بارشوں کے باعث ایسی ہی صورتحال کا سامنا رہا، ان دو صوبوں کو میڈیا نے اس لیے نظر انداز کیا کہ یہاں سے ان کو درکار ریٹنگ نہیں ملتی، صوابی، ٹانک، نوشہرہ، سوات، چترال، کرک، خیبر، مردان اور متعدد دوسرے علاقوں میں نہ صرف کروڑوں اربوں کا نقصان ہوا بلکہ 6 بچوں سمیت ایک درجن سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ایسے واقعات کے دوران ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر مسئلے کا حل تلاش کیا جاتا سیاسی جماعتوں اور کارکنوں نے بدترین الزام تراشی کی مہم چلا کر متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کا رویہ اپنایا،سیلاب کے ایشو پر لا حاصل بحث جاری تھی کہ حیدرآباد سندھ میں ایک واقعے کے دوران بوجوہ ایک مقامی شخص کو قتل کرنے اور پھر ایک پشتون دکاندار، دیگر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس نے سوشل میڈیا پر حسبِ معمول لسانی منافرت پر مبنی بحث شروع کردی اور لوگوں نے اس کو ایک سازش کا نام دیکر سیاسی پوائنٹ سکور نگ کی مہم کا آغاز کیا،یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ سندھ جیسے صوبے میں 50 لاکھ سے زائد پشتون رہائش پذیر ہیں اور ایسی نفرت اگر مزید پھیلتی ہے تو اس کے منفی نتائج ان لاکھوں غریب پشتونوں کو بھگتنے پڑیں گے جو کہ رزق کی تلاش میں مسافری کرنے پر مجبور ہیں۔ماضی میں ایسے ہی چند واقعات کو جب سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا تو برسوں تک سندھ اس کے منفی اثرات سہتا رہا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے، سندھ میں ہر علاقے اور ہر قومیت کے لوگ آباد ہیں اسی وجہ سے کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے، ان کے درمیان منافرت پھیلانے والے نہ تو پاکستان کے خیر خواہ ہوسکتے ہیں نہ ان لوگوں کے دوست جو محنت مزدوری کرنے وہاں گئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ کہیں نہ کہیں زیادتی ہورہی ہوتی ہے اور اس ضمن میں سب سے اہم چیز انصاف کی بلا امتیاز اور فوری فراہمی ہے تاہم کسی زیادتی کو بنیاد بنا کر نفرت پھیلانے کی اجازت کسی فریق کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ حب الوطنی، قومیت اور جمہوریت کے کارڈز جس منفی طریقے سے پاکستان میں استعمال ہورہے ہیں اس کا ادراک اور روک تھام کرنا اب لا زمی ہوچکا ہے، پاکستان مزید تجربات اور تلخیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی قائدین اور اہم ریاستی ادارے جاری صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیکر غلط فہمیاں، دوریاں اور نفرت پھیلانے والے عناصر کا سخت محاسبہ کریں ورنہ دوسری صورت میں شدید قسم کے ایسے مسائل پیدا ہوں گے جن سے نکلنا سب کیلئے ایک بڑا چیلنج بن کر رہ جائے گا۔